بدھ 15 شوال 1445 - 24 اپریل 2024
اردو

خنزير كے گوشت كو بہتر بنانے كى قيمتى ملازمت كى پيشكش

7489

تاریخ اشاعت : 07-08-2005

مشاہدات : 4390

سوال

مجھے ايك كمپنى كى جانب سے بہت اچھى خصوصيات كى حامل ملازمت كى پيشكش ہوئى ہے، ميرا كام كمپنى كى ليبارٹرى ميں خنزير كى پيداوار كے متعلق ريسرچ ہو گا، اس ريسرچ كا ہدف اور مقصد خنزير كى موروثى پيداوار كى اچھى اور بہتر قسم پيدا كرنا ہے ( يعنى خنزير كى تعداد زيادہ ہو، اور اس كا گوشت بہتر اوصاف كا حامل ہو ) تا كہ اسے بازار ميں كھپت كے ليے پيش كيا جاسكے.
يعنى ميرى تنخواہ كا مصدر اور منبہ خنزير كے گوشت كى كھپت ہو گا، جو كہ شرعا حرام ہے، سوال يہ ہے كہ:
آيا اس طريقہ سے حاصل كردہ مال حلال ہے؟
اور كيا ميں يہ ملازمت قبول كر لوں، يا قبول كرنے سے انكار كردوں؟
جلد از جلد جواب ديكر مشكور ہوں تا كہ مجھے اس موضوع ميں غور كرنے كا موقع مل سكے. اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

مسلمان شخص پر خنزير كا گوشت حرام ہے، كيونكہ فرمان بارى تعالى ہے:

كہہ ديجئے كہ جو كچھ احكام بذريعہ وحى ميرے پاس آئے ہيں ان ميں تو كسى كھانے والے كے ليے ميں كوئى چيز حرام نہيں پاتا جو اس كو كھائے مگر يہ كہ وہ مردار ہو يا كہ بہتا ہوا خون ہو يا پھر خنزير كا گوشت ہو، كيونكہ وہ بالكل ناپاك ہے، يا جو شرك كا ذريعہ ہو كہ غير اللہ كے ليے نامزد كر ديا گيا ہو، پھر جو شخص مجبور ہو جائے بشرطيكہ نہ تو طالب لذت ہو، اور نہ ہى تجاوز كرنے ہو تو واقعى آپ كا رب غفور الرحيم ہے الانعام ( 145 )

اور اسى طرح اس كى خريد و فروخت بھى حرام ہے.

جابر بن عبداللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ انہوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو مكہ ميں فتح مكہ كے سال يہ فرماتے ہوئے سنا:

" بلا شبہ اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے شراب، اور مردار، اور خنزير اور بت حرام كر ديے ہيں.

تو عرض كيا گيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: مردار كى چربى كے بارہ ميں بتائيں؛ كيونكہ اس سے كشتياں رنگى جاتى ہيں، اور چمڑے كو رنگا جاتا ہے، اور لوگ اس سے چراغ جلاتے ہيں؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" نہيں، يہ حرام ہے، پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس وقت فرمايا: " اللہ تعالى يہوديوں كو تباہ و برباد كرے، يقينا اللہ تعالى نے تو ان پر اس كى چربى حرام كى تھى تو انہوں نے چربى پگلائى اور پھر اسے فروخت كر كے اس كى قيمت كھالى"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2121 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1581 )

لھذا جب اللہ تعالى نے كسى چيز كو حرام كيا تو اس كى قيمت بھى حرام كر دى، اور اسى طرح حرام تك جانے كا وسيلہ اور ذريعہ بھى حرام ہے، اور وسائل كے احكام مقاصد كے ہيں، تو كسى مسلمان شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ فاسقوں اور فاجروں كا ان كے فسق و فجور ميں تعاون كرتا پھرے، بلكہ اس پر واجب ہے كہ وہ حسب استطاعت ان كے فسق و فجور كے آڑے آئے اور انہيں اس سے روكنے كى كوشش كرے، نہ كہ وہ ان كے ليے حرام چيز كو بنا سنوار كر اور بہتر طريقہ سے پيش كرے، اور اس كى ترقى اور بہترى كے ليے كام كرے.

تو كيا آپ حرام اشياء كو مزين كرنے اور سنوارنے والا اور حرام اشياء پر ابھارنے كا آلہ بننا پسند كريں گے، اور اسے عام كرنے اور تناول كرنے ميں ممد و معاون ثابت ہو نگے؟

ميرا خيال ہے كہ آپ كا جواب يہى ہو گا: اللہ تعالى بچائے ميں تو اپنے نفس كے ليے اسى چيز پر راضى ہوں اور وہى پسند كرونگا جو اسے پيدا كرنے والا خالق و مالك اس كے ليے پسند كرتا ہے، اور اس طرح كے باطل اور غلط كام كے ليے كبھى بھى كام نہيں كرونگا اگرچہ اس كے بدلے ميں مجھے بہت كچھ بھى كيوں نہ ديا جائے، اور روزى تو اللہ تعالى كے ہاتھ ميں ہے، لھذا آپ كوئى اور حلال ملازمت اور كام تلاش كرليں.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہميں اپنى حرام كردہ اشياء سے اپنى حلال كردہ اشياء كے ساتھ كافى ہو جائے اور حلال كے ساتھ ہى كفائت كرے، اور اپنے فضل كے ساتھ دوسروں سے غنى اور بے پرواہ كر دے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد