سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

آئندہ پیش آنے والی مشکلات سے بچنے اورمنگیتر کی حالت جاننے کے لیے اس کے ساتھ جانا چاہتی ہے

سوال

میرا سوال ایسے موضوع کے متعلق ہے جس کی وجہ سے مجھے کچھ عرصہ سےبہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا رہا ہے ، تقریبا ایک برس سے مجھے طلاق ہوچکی ہے اورمیرا کوئي بچہ بھی نہیں ، اب اس واقعہ کوایک برس مکمل ہوچکا ہے ، میرا سوال یہ ہے کہ :
جس سے میری شادی ہوئي میں اسے شادی سے قبل بالکل نہیں جانتی تھی اس میں نے شادی صرف اس لیے کی کہ میرے والدین کا خیال تھا کہ وہ میرے لیے مناسب رہے گا ، جوکچھ میرے ساتھ ہوچکا سوہوچکا میں نے یہ سوچا ہے کہ بہتر یہ ہے کہ میں جس سے شادی کروں اسے شادی کرنے سے قبل جان لوں ، میرا یہ کوئي مقصد نہیں کہ میں اس کے ساتھ عھد وپیماں کرتی رہوں اوراس کے ساتھ گھومتی پھروں ۔
بلکہ صرف یہ مقصد ہے کہ اس سے بات چيت اورتعارف ہوجائے تا کہ مجھے یہ علم ہو سکے کہ وہ میرے لیے مناسب بھی ہے کہ نہیں ؟
میں جس نقطے کی وضاحت کرنا چاہتی ہوں وہ یہ ہے کہ میں اپنے جذبات مجروح نہیں کرنا چاہتی یا پھر یہ نہیں چاہتی کہ ایک بار پھرمیرا معاملہ پھر طلاق پر جاکر ختم ہو۔ میرا سوال ہے کہ آیا اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ لڑکی اپنے لیے خاوند اختیار کرکے اس سے شادی کرے ؟
مجھے اس موضوع کی وضاحت کی اشد ضرورت ہے ، آپ کے تعاون پرآپ کی قدر کرتے ہوئے آپ کی مشکور رہوں گی اللہ تعالی آپ کو اپنی حفاظت میں رکھے ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اسلام نے والد کے لیے بیٹی کی شادی کے وقت اجازت لینی مشروع کی ہے چاہے وہ لڑکی کنواری ہو یا پہلے سے شادی شدہ اور لڑکی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ رشتہ کے لیے آنے والے مرد کے بارہ میں معلومات حاصل کرے ، معلومات حاصل کرنے کے لیے مختلف طریقوں سے اس کے بارہ میں پوچھا جاسکتا ہے ۔

مثلا لڑکی اپنے قریبی رشتہ داروں کو یہ کہے کہ وہ اس مرد کے دوست واحباب سے اس کے متعلق معلومات حاصل کریں کیونکہ دوسروں کی بنسبت اس کے دوسب واحباب جو کہ اس کےقریب رہتے ہيں زيادہ معلومات ہوں گی جو باقی لوگوں کے سامنے ظاہر نہیں ہوتیں ۔

عقد نکاح سے قبل لڑکی کے لیے کسی بھی حالت میں لڑکے سے خلوت کرنی جائز نہیں ، اورنہ ہی اس کے سامنے بے پردہ ہوکرآنا جائز ہے ، اوریہ بھی معروف ہے کہ اس طرح کی ملاقاتوں میں لڑکے کی اصلیت اورطبیعت واضح نہیں ہوتی بلکہ وہ تکلف اور مجاملت سے کام لیتا ہے ، اگر وہ لڑکی اس کے ساتھ خلوت بھی کرلے اورباہر بھی چلی جائے پھر بھی اس کی شخصیت اورحقیقت واضح نہیں ہوسکتی ۔

بہت ساری لڑکیاں اپنے منگیتروں کے ساتھ باہر نکلنے کی معصیت کرنے کے باوجود بھی کچھ حاصل نہیں کرسکیں بلکہ ان کے اس کام کا انجام انتہائی تکلیف دہ رہا انہیں سوائے معصیت اورخلوت اوراپنا آپ اسے پیش کرنے کے کچھ حاصل نہیں ہوا ۔

کتنے ہی شیريں زبان میں کلام کرنے والے اپنی منگیتر کے جذبات سے کھیلتے اوراسے باہر لے کر نکلتے ہیں جس میں وہ اسے اپنا اچھا پہلو دکھانے کی کوشش کرتے ہیں ، لیکن جب آپ اس کے بارہ میں لوگوں سے پوچھیں اوراس کے حالات کے بارہ میں دوسروں کے احساسات حاصل کریں تو کچھ مختلف قسم کا پہلو سامنے آئے گا ۔

اس لیے منگیتر کے ساتھ خلوت اوراس کے ساتھ نکلنے سے بھی یہ مشکل حل نہیں ہوگی ، اگر ہم یہ فرض کریں کہ اس میں یہ فائدہ تو ہے کہ اس کی شخصیت نکھر کے سامنے آجاتی ہے ، لیکن اس پر جومعصیت اورگناہ مرتب ہوتے ہیں جن کا انجام کوئي اچھا نہیں ہوتا یہ نقصان اس فائدہ سے بہت ہی زيادہ ہے ، اسی لیے شریعت اسلامیہ نے اجنبی مرد کےساتھ خلوت اوراس کے سامنے کرنے کاحکم دیا ہے ، اورمنگیتر بھی اجنبی ہی ہے ۔

پھر ہم یہ بھی ضروری ہے کہ ہم ایک بہت ہی اہم معاملہ نہ بھولیں کہ شرعی عقد نکاح سے کے بعد رخصتی سے قبل عورت کے پاس بہت وقت ہوتا ہے کہ وہ مرد کی شخصیت کے بارہ میں معلومات حاصل کرے اوراس کے بارہ میں جس چيز کی تحقیق کرنا چاہے کرسکتی ہے ، کیونکہ عقدنکاح کے بعد وہ اس سے خلوت بھی کرسکتی ہے اوراس کے ساتھ باہرگھومنے بھی نکل سکتی ہے ۔

اگر اس عرصہ میں کسی ایسے معاملے کا انکشاف ہوجائے جسے وہ برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتی تواس سے خلع حاصل کرسکتی ہے ، لیکن جب عقد نکاح سے قبل اس کے بارہ میں اچھے طریقے سے معلومات اکٹھی کرلی جائيں اورلوگوں اوراس کے اقرباء اوردوست واحباب سے پوچھ لیا جائے تو پھر غالب طور پر نتیجہ اچھا ہی نکلتا ہے ۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ آپ کے لیے اچھائي اوربھلائي اختیار کرے اورآپ جہاں بھی ہوں آپ کے لیے آسانی پیدا فرمائے ، اورہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی رحتيں نازل فرمائے ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد