سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

معصيت و گناہ كے اڈوں پر گاہك پہنچا كر كميشن لينے كا حكم

75443

تاریخ اشاعت : 13-08-2007

مشاہدات : 5709

سوال

ميں جرمنى ميں رہتا ہوں ميرا ايك دوست ٹيكسى ڈرائيور كہتا ہے كئى بار سوارى ہميں فحاشى كے اڈے پر پہنچانے كا كہتى ہے، اور سوارى وہاں اتارنے كر سوارى سے اجرت لينے كے بعد ہمارے ٹيكسى ڈرائيور كو اختيار ہے كہ وہ اڈے پر جا كر كميشن اور انعام حاصل كرے، جو تقريبا تيس يورو سے كم نہيں ہوتى، ہمارى يہ دوست سوارى اتار كر واپس آ جاتا ہے اور اڈے سے كچھ نہيں ليتا، سوال يہ ہے كہ:
كيا اس كے ليے بخشش يا انعام يا كميش لينا جائز ہے، اور بنك سے سودى فوائد لے كر خود استعمال نہ كرے بلكہ اسے مسلمانوں كے رفاہ عامہ ميں خرچ كرنے پر قياس كرتے ہوئے يہ كميشن بھى اسے ان كے پاس چھوڑنى نہيں چاہيے كيا ايسا كرنا صحيح ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

چاہيے تو يہ تھا كہ ان گناہ اور معصيت كرنے والوں كو معصيت كے اڈے پر لےجانے كے حكم كا سوال كيا جاتا، نہ كہ انہيں ان فحاشى اور برائى كے اڈوں پر پہنچا كر كميشن لينے كا سوال كيا جاتا، يہ كميش تو انہيں وہاں پہنچانے كے حكم كے تابع ہے.

سوال نمبر ( 10398 ) كے جواب ميں نافرمانى اور گناہ كا ارتكاب كرنے والے افراد كو معصيت و نافرمانى اور برائى كے اڈوں پر پہنچانے كى حرمت كا بيان ہو چكا ہے، تو اس طرح ڈرائيور كے ليے حرام ہے كہ وہ كسى بھى شخص كو ايسى جگہ لے كر جائے جہاں يقينى طور پر اسے معلوم ہو كہ وہاں معصيت و نافرمانى ہوتى ہے مثلا زنا و فحاشى كے اڈے اور ڈانس كلب اور نائٹ كلب، اور مخلوط سوئمنگ پول وغيرہ، يا اس كا غالب گمان ہو كہ وہاں برائى ہوتى ہے.

اور اگر ڈرائيور ايسا كرتے ہوئے كسى شخص كو ان برائى كے اڈوں پر پہنچاتا ہے تو وہ بھى ان كے ساتھ گناہ و برائى اور فحاشى اور ان كے جرائم ميں برابر كا شريك ہے، اور يہ گناہ و معصيت اور ظلم و زيادتى ميں تعاون شمار ہو گا.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور تم گناہ و معصيت اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو، اور اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو يقينا اللہ تعالى سخت سزا دينے والا ہے المآئدۃ ( 2 ).

اور اگر وہ علم ہونے كے باوجود ايسا كام كرتا ہے تو اسے جتنى جلدى ہو سكے توبہ و استغفار كرتے ہوئے آئندہ كے ليے عزم كرنا چاہيے كہ وہ ايسا كام دوبارہ نہيں كريگا، اور وہ اس گندے اور خبيث مال كى طرف متوجہ نہ ہو جو ان فحاشى اڈوں كے مالك اسے دينگے، اسے اس سے فقيرى ہى بہتر ہے.

اور مسلمان شخص پر واجب اور ضرورى ہے كہ وہ ان فحاشى اور برائى كے اڈوں كے مالكوں كو اس برائى سے منع كرے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم ميں سے جو كوئى بھى كسى برائى كو ديكھے تو اسے وہ اپنے ہاتھ سے روكے، اور اگر اس ميں استطاعت نہ ہو تو اسے اپنى زبان سے روكے، اور اگر اس كى بھى استطاعت نہ ہو تو اسے اپنے دل سے روكے، اور يہ كمزور ترين ايمان ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 49 ).

تو جو شخص اپنى گاڑى سے اتر كر ان فحاشى كے اڈوں پر گناہ و معصيت كرنے والے شخص كو پہنچانے كى كميش وصول كرنے كے ليے جانے والے پر شريعت نے برائى كو روكنا واجب كس طرح كيا ہے ؟!

تو اس طرح نہ تو وہ برائى كو ہاتھ سے روكنے والا بن سكا، اور نہ ہى اپنى زبان سے روكنے والا، اور نہ ہى اپنے دل سے برائى روكنے والا بنا، جو كہ اس شخص كے بہت ہى خطرناك معاملہ ہے.

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان: ( تو وہ اسے روكے ) امت كے اجماع كے مطابق يہ امر وجوب كے ليے ہے، اور امر بالمعروف اور نہى عن المنكر كا وجوب تو كتاب و سنت اور اجماع سے ثابت ہے، اور يہ اسى نصيحت اور خير خواہى ميں سے ہے جو كہ دين ہے ...

اور آپ يہ جان ليں كہ يہ مسئلہ يعنى امر بالمعروف اور عن المنكر كا مسئلہ بہت عرصہ سے لوگوں نے ترك كر كے اسے ضائع كر كے ركھ ديا ہے اور اس دور ميں صرف اس كا نام و نشان ہى باقى بچا ہے اور بہت ہى قليل عمل ہوتا ہے، اور يہ باب بہت عظيم ہے، اس سے ہى حكمران اور معاشرہ سدھرتا ہے، اور جب خرابياں اور برائياں عام ہو جائيں تو پھر ہر نيك و بد اس كى سزا كى لپيٹ ميں آ جاتا ہے، اور جب ظالم كا ہاتھ نہ روكا جائے تو خدشہ ہے كہ اللہ تعالى اپنا عذاب اور سزا عمومى طور پر نازل كر دے اور سب اس كى لپيٹ ميں آ جائيں.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

ان لوگوں كو ڈر جانا چاہيے جو اس كى حكم كى مخالفت كرتے ہيں كہ انہيں كوئى فتنہ يا المناك عذاب نہ پہنچ جائے . انتہى.

ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 2 / 22 - 24 ) مختصرا.

اور كسى بھى مسلمان شخص كے ليے جان بوجھ كر كسى حرام فعل كا مرتكب ہونا حلال نہيں تا كہ وہ اس كے ذريعہ مال كمائے اور اسے مسلمانوں كے رفاہ عامہ كے ليے خرچ كرے، بخلاف اس شخص كے جو شخص سود، يا حرام كمائى سے توبہ كرتا ہے، تو اس طرح كے لوگوں كى توبہ كا تقاضہ يہ ہے كہ وہ اس طريقہ سےكمائے ہوئے مال كو نيكى و خير كے كاموں ميں صرف كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب