منگل 2 جمادی ثانیہ 1446 - 3 دسمبر 2024
اردو

تشھد ميں انگلى كو حركت دينا

سوال

ميں بعض نمازيوں كو ديكھا ہے كہ تشھد ميں اپنى انگشت شہادت اوپر نيچے ہلاتے ہيں، كيا ايسا كرنا سنت ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ نماز ميں تشھد كے اندر اپنى انگشت شہادت سے اشارہ كرتے اور اسے حركت ديتے تھے، اس ميں اہل علم كا اختلاف اور كئى ايك اقوال ہيں:

1 - احناف كے ہاں انگلى كو تشھد ميں اس وقت اٹھايا جائيگا جب اشھد ان لا الہ ميں ميں لا كہا جائے، اور اس كے بعد انگلى نيچے كر لى جائيگى.

2 - شافعى حضرات كہتے ہيں كہ: الا اللہ كے وقت انگلى اٹھائى جائيگى.

3 - اور مالكيوں كے ہاں نماز سے فارغ ہونے تك انگلى دائيں بائيں حركت دى جائيگى.

4 - اور حنابلہ كے ہاں يہ ہے كہ جب بھى لفظ جلالہ " اللہ " كہا جائے انگلى سے اشارہ كيا جائيگا ليكن حركت نہيں دى جائيگى.

علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: سنت ميں ان تحديدات اور كيفيات كى كوئى اصل اور دليل نہيں ہے، اور اگر لفظ جلالہ كے وقت حركت كى قيد نہ لگائيں تو سب سے قريب مذہب حنابلہ كا ہے.

ديكھيں: تمام المنۃ صفحہ نمبر ( 223 ).

دوم:

اس مسئلہ ميں دلائل:

ا ـ عبد اللہ بن زبير رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز ميں بيٹھتے تو اپنا باياں پاؤں ران اور پنڈلى كے درميان كرتے، اور داياں پاؤں بچھاتے اور اپنا باياں ہاتھ بائيں گھٹنے اور داياں ہاتھ دائيں ران پر ركھتے، اور اپنى انگلى كے ساتھ اشارہ كرتے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 579 ).

اور نسائى اور ابو داود ميں ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جب دعاء كرتے تو اپنى انگلى كے ساتھ اشارہ كرتے، اور اسے حركت نہيں ديتے تھے "

سنن نسائى حديث نمبر ( 1270 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 989 ) اور اسے حركت نہيں ديتے تھے، والے زيادہ الفاظ كو زاد المعاد ميں ابن قيم اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے تمام المنۃ ميں ضعيف كہا ہے.

ديكھيں: زاد المعاد ( 1 / 238 ) اور تمام المنۃ صفحہ نمبر ( 218 ).

ب ـ وائل بن حجر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے كہا ميں ضرور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ديكھوں گا كہ وہ نماز كس طرح ادا كرتے ہيں:

" چنانچہ ميں نے ديكھا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كھڑے ہوئے اور تكبير كہى اور اپنے دونوں ہاتھ كانوں تك بلند كيے ( يعنى رفع اليدين كيا ) پھر اپنا داياں ہاتھ اپنى بائيں ہتھيلى اور جوڑ اور كلائى پر ركھا، اور جب ركوع كرنا چاہا تو پھر اسى طرح رفع اليدين كيا.

راوى كہتے ہيں: اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر ركھے، اور پھر جب ركوع سے سر اٹھايا تو اسى طرح رفع اليدين كيا، پھر سجدہ كيا اور اپنے دونوں ہاتھ كانوں كے برابر كيے، اور پھر بيٹھے تو اپنا باياں پاؤں بچھايا اور اپنى دائيں ہتھيلى اپنى بائيں ران اور گھٹنے پر ركھى، اور اپنى دائيں كہنى كى حد اپنى دائيں ران پر ركھى پھر اپنى دو انگلياں بند كيں اور حلقہ بنايا اور پھر اپنى انگلى اٹھائى تو ميں نے ديكھا كہ اسے حركت دے رہے اور اس كے ساتھ دعاء كر رہے تھے"

سنن نسائى حديث نمبر ( 889 ) ابن حبان ( 5 / 170 ) ابن خزيمہ نے صحيح ابن خزيمہ ( 1 / 354 ) ميں اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 367 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى نے اس حديث " اسے حركت دے كر دعاء كر رہے تھے "

سے يہ استدلال كيا ہے كہ تشھد ميں ہر دعائيہ جملہ پر انگلى كو حركت دى جائيگى.

الشرح الممتع ميں كہتے ہيں:ط

" سنت اس پر دلالت كرتى ہے كہ دعاء كے وقت انگلى كے ساتھ اشارہ كرے، كيونكہ حديث كے لفظ ہيں: " اسے حركت دے كر دعاء كر رہے تھے " چنانچہ جب بھى آپ دعاء كريں تو انگلى كے ساتھ اوپر كى طرف اللہ سبحانہ وتعالى كى طرف اشارہ كريں، اس سے دعاء كى مانگى جارہى ہے، اس ليے ہم كہتے ہيں كہ:

السلام عليك ايہا النبى ـ يہاں انگلى كو حركت دے كر اشارہ كيا جائيگا كيونكہ السلام خبر ہے جو كہ دعاء كے معنى ميں ہے.

السلام علينا: ـ اس ميں بھى اشارہ ہو گا.

اللہم صلى على محمد : يہاں بھى انگلى كو ہلايا جائيگا.

اللہم بارك على محمد: اس ميں بھى اشارہ كرتے ہوئے انگلى كو حركت ديں.

اعوذ باللہ من عذاب جہنم: ـ اس ميں بھى اشارہ اور انگلى كو حركت دى جائيگى.

و من عذاب القبر: يہاں بھى حركت ديں.

و من فتنۃ المحيا و الممات: يہاں بھى اشارہ اور حركت ہو گى.

و من فتنۃ مسيح الدجال: اس ميں بھى اشارہ كرينگے.

اور جب بھى آپ دعاء كريں انگلى كے ساتھ اوپر كى جانب جس سے آپ دعاء كر رہے ہيں اشارہ كريں، يہى سنت كے زيادہ قريب ہے. اھـ

سوم:

سنت يہ ہے كہ انگلى كے ساتھ اشارہ اور حركت ديتے ہوئے انگشت شہادت كى طرف ديكھا جائے.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" سنت يہ ہے كہ اس كى نظر اس كے اشارہ سے تجاوز نہ كرے، اس كے متعلق سنن ابو داود ميں صحيح حديث موجود ہے، اور قبلہ كى جانب اس سے اشارہ كرے اور اس ميں توحيد اور اخلاص كى نيت ہونى چاہيے "

ديكھيں: شرح مسلم ( 5 / 81 ).

جس حديث كى طرف امام نووى رحمہ اللہ تعالى نے اشارہ كيا ہے يہ عبد اللہ بن زبير رضى اللہ تعالى عنہما كى مندرجہ بالا حديث ہے، ابو داود ميں اس كے الفاظ اس طرح ہيں:

" اس كى نظر اشارہ سے تجاوز نہ كرے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 989 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

چہارم:

سنت يہ ہے كہ انگلى كے ساتھ قبلہ كى جانب اشارہ كيا جائے.

عبد اللہ بن عمررضى اللہ تعالى عنہما نے ايك شخص كو نماز ميں ہاتھ كے ساتھ كنكرياں ہلاتے ہوئے ديكھا، اور جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے اسے فرمايا:

" تم نماز ميں كنكريوں كو حركت نہ ديا كرو، كيونكہ يہ شيطان كى جانب سے ہے، ليكن تم اس طرح كيا كرو جس طرح رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كيا كرتے تھے.

راوى كہتے ہيں: چنانچہ انہوں نے اپنا داياں ہاتھ اپنى ران پر ركھا اور انگوٹھے كے ساتھ والى انگلى سے قبلہ كى جانب اشارہ كرنے لگے، اور اپنى نظر بھى انگلى كى طرف كرلى، پھر فرمانے لگے:

" ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ايسا كرتے ہوئے ديكھا "

سنن نسائى حديث نمبر ( 1160 ) ابن خزيمہ ( 1 / 355 ) ابن حبان ( 5 / 273 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

پنجم:

اشارہ كرتے ہوئے انگلى كو ٹيڑھا كرنا، يہ نمير الخزاعى كى حديث ميں آيا ہے جو ابو داود حديث نمبر ( 991 ) اور سنن نسائى حديث نمبر ( 1274 ) ميں موجود ہے، ليكن يہ حديث ضعيف ہے.

ديكھيں: تمام المنۃ للالبانى صفحہ نمبر ( 222 ).

واللہ اعلم  .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب