الحمد للہ.
شرعى احكام كا مرجعہ اور ماخذ كتاب و سنت ہونا چاہيے نہ كہ لوگوں كى رائے، اور مزاج اور خواہشات اور استحسانات، فى ذاتہ اس مسئلہ ميں كئى ايك نصوص آئى ہيں، اور كچھ تو شديد نہى والى ہيں، اس ميں بہت سارى احاديث ہيں، جن ميں سے چند ايك صحيح احاديث ہم ذيل ميں درج كرتے ہيں جن ميں عورت كا گھر سے باہر نكلتے وقت خوشبو استعمال نہ كرنے كا بيان ملتا ہے:
1 - ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس عورت بھى خوشبو لگا كر لوگوں كے پاس سے گزرے كہ لوگ اس كى خوشبو پائيں تو وہ عورت زانيہ ہے "
2 - زينب ثقفيہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم ميں سے كوئى عورت مسجد كى طرف جائے تو وہ خوشبو كے قريب بھى نہ جائے "
3 - ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس عورت نے بھى بخور ( خوشبو كى دھونى ) لى ہو وہ ہمارے ساتھ عشاء كى نماز ميں مت آئے "
4 - موسى بن يسار بيان كرتے ہيں كہ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس سے ايك عورت گزرى جس سے خوشبو آ رہى تھى تو ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے:
" اے اللہ و جبار كى بندى كيا تم مسجد جانا چاہتى ہو ؟
وہ عرض كرنے لگى: جى ہاں، تو ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: جاؤ جا كر غسل كرو، كيونكہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا ہے:
" جو عورت بھى مسجد كى جانب جائے اور اس سے خوشبو آ رہى ہو تو اللہ تعالى اس كى نماز اس كى وقت قبول نہيں كرتا جب تك كہ وہ اپنے گھر واپس آ كر غسل نہ كر لے "
خوشبو استعمال كرنے سے ممانعت كا سبب واضح ہے كہ خوشبو شہوت كو انگيخت ديتى ہے، اور شہوت انگيخت كے اسباب ميں شامل ہے، اور علماء كرام نے اس كے ساتھ ان اشياء كو بھى ملحق كيا ہے جو اس كے معنى ميں شامل ہوتى ہوں مثلا: اچھا اور خوبصورت لباس، اور جو زيور ظاہر ہوتا ہو، اور اعلى قسم كى زينت و زيبائش، اور اسى طرح مردوں كے ساتھ اختلاط اور ميل جول "
ديكھيں: فتح البارى ( 2 / 279 ).
اور ابن دقيق العيد كہتے ہيں:
" اس حديث ميں مسجد كى طرف جانے والى عورت كے ليے خوشبو كے استعمال كى حرمت پائى جاتى ہے، كيونكہ ايسا كرنے ميں مردوں كى شہوت كو حركت دينے كے اسباب پائے جاتے ہيں، اسے مناوى رحمہ اللہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى پہلى حديث كى شرح كرتے ہوئے " الفيض القدير " ميں نقل كيا ہے "
اس ليے صحيح شرعى دلائل كے بعد جدال اور بحث اور مخالفت كى كوئى مجال اور گنجائش ہى باقى نہيں رہتى، بلكہ مسلمان عورت پر واجب اور ضرورى ہے كہ وہ اس معاملہ كى خطرناكى اور اس شرعى حكم كى مخالف پر ہونے والے گناہ كو سمجھے، اور اسے يہ ياد ركھنا چاہيے كہ وہ تو اجر و ثواب حاصل كرنے نكلى ہے، نہ كہ گناہ و معصيت كے ارتكاب كے ليے، اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہميں سلامتى و عافيت سے نوازے.
بعد ميں ہم نے نئى ايجادات كى اخبار ميں يہ بھى پڑھا كہ بيالوجى كے علماء اور سانسدانوں نے يہ انكشاف كيا ہے كہ ناك ميں جنسى غدہ ہوتا ہے، يعنى دوسرے معنوں ميں يہ كہ سونگھنے كى طاقت اور شہوت انگيزى ميں بلاواسطہ تعلق اور ارتباط ہوتا ہے، اگر ان كى يہ بات صحيح ہے تو پھر يہ چيز بھى شريعت اسلامى كے مبارك احكام كى نشانيوں ميں سے ايك نشانى ہے، جو عفت و عصمت لائى ہے، اور جس نے فحاشى كے تمام راستوں كو بند كيا ہے، حتى كہ كفار كے ليے بھى.
واللہ اعلم .