الحمد للہ.
جو شخص بھى بيان كردہ اوصاف اور حالت پر فوت ہوا ہو اس كے جنازہ ميں شريك ہونا اور اس كى نماز جنازہ ادا كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى اس كے دعا اور استغفار كى جا سكتى ہے، اور نہ اس كى جانب سے حج اور صدقہ كيا جا سكتا ہے؛ كيونكہ اس كے مذكورہ اعمال شركيہ اعمال ہيں، اور سابقہ آيت ميں اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
نبى صلى اللہ عليہ وسلم اور مومنوں كے شايان شان نہيں كہ وہ مشركوں كے ليے دعائے استغفار كريں، چاہے وہ ان كے قريبى عزيز ہى كيوں نہ ہوں التوبۃ ( 113 ).
اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ انہوں نے فرمايا:
" ميں نے اپنے رب سے اپنى والدہ كى استغفار كے ليے دعا كرنے كى اجازت طلب كى تو مجھے اجازت نہ ملى، اور ميں نے اس كى قبر كى زيارت كرنے كى اجازت طلب كى تو مجھے اجازت دے دى گئى "
مسند احمد ( 2 / 441 ) ( 5 / 355 ) صحيح مسلم ( 2 / 671 ) حديث نمبر ( 976 ) سنن ابو داود ( 3 / 557 ) حديث نمبر ( 3234 ) سنن نسائى ( 4 / 90 ) حديث نمبر ( 2034 ) سنن ابن ماجۃ ( 1 / 501 ) حديث نمبر ( 1572 ) ابن ابى شيبۃ ( 3 / 343 ) ابن حبان ( 7 / 440 ) حديث نمبر ( 3169 ) مستدرك الحاكم ( 1 / 375 - 376 ) البيھقى ( 4 / 76 ).
اور جو كچھ كہا گيا ہے وہ اس بنا پر معذور نہيں: كہ ان كے پاس كوئى ايسا شخص نہيں آيا جو انہيں يہ بتائے كہ جن امور كے وہ مرتكب ہو رہے ہيں وہ شرك ہے، اس ليے كہ قرآن مجيد كے دلائل واضح ہيں، اور ان كے مابين اہل علم موجود ہيں، لھذا جس شرك پر وہ ہيں اس كے متعلق ان كے ليے سوال كرنا ممكن ہے، ليكن انہوں نے سوال كرنے سے اعراض كيا اور اپنے اعمال پر راضى رہے.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور ان كے صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.