سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

كافر كے جنازہ ميں شريك ہونا

7869

تاریخ اشاعت : 27-02-2006

مشاہدات : 5467

سوال

كفار كے جنازہ ميں شركت ميں كرنا جو آج كل ايك سياسى، عرفى، اور تقليدى مسئلہ بن چكا ہے، اس ميں اللہ تعالى كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب كفار كو دفن كرنے كے ليے كفار موجود ہوں تو پھر مسلمان كو اس كے دفن كى ذمہ دارى نہيں لينى چاہيے، اور نہ ہى وہ كفار كے مردے دفن كرنے ميں معاونت كريں، يا ان كے جنازے ميں سياست پر عمل كرتے ہوئے مجاملۃ يعنى تواضع سمرقندى كرتے ہوئے شريك نہ ہو؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ايسا كرنا ثابت نہيں، اور نہ ہى ان كے خلفاء راشدين نے ايسا كيا.

بلكہ اللہ سبحانہ وتعالى نے تو اپنے محبوب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو عبد اللہ بن ابى بن سلول كى قبر پر كھڑا ہونے سے منع كيا اور اس كى علت بيان كرتے ہوئے كہا كہ اس نے كفر كيا ہے.

فرمان بارى تعالى ہے:

ان ميں سے كوئى مر جائے تو آپ اس كى نماز جنازہ ہرگز نہ پڑھائيں، اور نہ ہى اس كى قبر پركھڑے ہوں، كيونكہ انہوں نے اللہ تعالى كے ساتھ كفر كيا ہے اور وہ مرتے دم تك بدكار اور فاسق رہے التوبۃ ( 84 ).

اور اگر كافر كے مرنے كى حالت ميں كوئى اور كافر اسے دفن كرنے والا نہ ہو تو پھر اسے مسلمان دفن كرينگے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بدر ميں قتل ہونے والے كفار كے ساتھ كيا، اور اپنے چچا ابو طالب كے ساتھ كيا جب وہ فوت ہوا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے على رضى اللہ تعالى عنہ كو فرمايا:

" جاؤ جا كر اسے چھپا دو "

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور ان كے صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.

ماخذ: ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 10 )