الحمد للہ.
روزہ ركھنے والے مسلمان شخص كو چاہيے كہ وہ رات كو اپنے دانت صاف كر ليا كرے، جہاں كھانے وغيرہ كے كچھ ذرات اٹك گئے ہوں تو وہ صاف ہو جائيں، اور اسے دوران وضوء اچھى طرح كلى كرنى چاہيے تا كہ دانتوں ميں پھنسے ہوئے كھانے كے ذرات نكل جائيں.
اور جس كسى نے بھى دانتوں ميں پھنسے ہوئے كھانے كے ذرات نكالنے كى استطاعت ہونے كے باوجود خود نگلے تو اس سے ا سكا روزہ ٹوٹ جائيگا، ليكن اگر وہ بغير اختيار كے ہوں، مثلا اگر وہ تھوك كے ساتھ مل كر خود ہى حلق ميں چلے جائيں اور وہ اسے باہر نكالنے كى استطاعت نہ ركھے تو اس كا روزہ صحيح ہے، اور اس پر كچھ لازم نہيں آتا.
ہمارے اصحاب ـ يعنى شافعيہ ـ كہتے ہيں: اگر اس كے دانتوں ميں كھانے كے ذرات باقى بچ رہيں تو اسے رات كو ہى دانتوں كا خلال كرنا اور اپنے منہ كو صاف كرنا چاہيے، اگر وہ صبح روزہ ركھے اور اس كے دانتوں ميں كچھ باقى ہو اور اس نے عمدا ان ذرات كو نگل ليا تو ہمارے نزديك بغير كسى اختلاف كے ا سكا روزہ ٹوٹ جائيگا، امام مالك، ابو يوسف اور احمد كا يہى قول ہے....
روزہ ٹوٹنے ميں ہمارى دليل يہ ہے كہ: اس نے اس چيز كو نگلا ہے جس سے احتراز كرنا اور بچنا ممكن تھا، اور اسے نگلنے كى كوئى ضرورت نہ تھى، تو اس طرح ا سكا روزہ باطل ہو جائيگا، جيسا كہ اگر اس نے اپنے ہاتھ سے اسے دانت سے نكالا اور نگل ليا.....
ليكن اگر وہ تھوك ميں مل گيا اور اس نے اسے بغير قصد و ارادہ كے نگل ليا تو اس ميں امام شافعى رحمہ اللہ سے اصحاب نے نقل كرنے ميں اختلاف كيا ہے، بعض نے يہ نقل كيا ہے كہ اس سے روزہ ٹوٹ جائيگا، اور بعض نے نقل كيا ہے كہ اس سے روزہ نہيں ٹوٹتا.
اور صحيح يہ ہے اور اكثر كا قول بھى يہى ہے كہ يہ دو حالتوں پر ہے: جب يہ كہا ہے كہ: اس سے روزہ نہيں ٹوٹےگا " تو اس سے يہ مراد ہے كہ اگر وہ اس ميں امتياز كرنے اور باہر نكالنے ميں قادر نہ ہو.
اور جب يہ كہا كہ: اس سے روزہ ٹوٹ جائيگا، تو اس سے مراد يہ ہے كہ جب وہ باہر نكالنے پر قادر ہو ليكن ايسا نہ كرے بلكہ اسے نگل جائے " انتہى. كچھ كمى و بيشى كے ساتھ.
ديكھيں: المجموع للنووى ( 6 / 317 ).
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 78438 ) كے جواب كا مطالعہ كريں، اس ميں ابن قدامہ رحمہ اللہ كى بہت ہى نفيس اور عمدہ كلام ہے آپ ا سكا مطالعہ كريں.
اور اسى طرح سوال نمبر ( 22981 ) كے جواب كا مطالعہ بھى كريں اس ميں روزہ توڑنے والے قواعد و ضوابط كا بيان ہوا ہے.
واللہ اعلم .