اتوار 23 جمادی اولی 1446 - 24 نومبر 2024
اردو

وقت كا علم نہ ركھنے والے قيدى كا روزہ اور نماز

سوال

اندھيرے تہ خانہ ميں محبوس قيدى جسے زنجيريں بھى لگى ہوں اور وہ نمازوں اور رمضان شروع ہونے كے اوقات كے متعلق كچھ علم نہ ركھے تو وہ نماز كس طرح ادا كريگا، اور اسى طرح روزہ كيسے ركھے گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ سب مسلمان قيديوں كو قيد سے جلد نجات دے، اور اپنے فضل و كرم سے انہيں صبر و تحمل اور تسلى و تشفى عطا فرمائے، اور ان كے دلوں كو يقين و طمانيت سے بھر دے، اور مسلمانوں كے ايسا راہ ميسر كرے جس ميں اہل اسلام كى عزت ہو اور اسلام كے دشمن ذليل ہو جائيں.

دوم:

اہل علم كا فيصلہ ہے كہ قيدى اور محبوس شخص سے نماز اور روزہ ساقط نہيں ہوتا، اور اس كے ليے ضرورى ہے كہ وہ اس كا وقت معلوم كرنے كى كوشش اور جدوجھد كرے، جب اس كے ظن غالب ميں ہو كہ نماز كا وقت شروع ہو گيا ہے تو وہ نماز ادا كر لے، اور جب اس كے ظن غالب ميں ہو كہ اب رمضان المبارك شروع ہو چكا ہے تو وہ روزہ ركھنا شروع كر دے.

اور اس كے ليے اسے كھانے كے اوقات كا خيال كرتے ہوئے استدلال كرنا ممكن ہے، يا پھر جيل والوں سے دريافت كر سكتا ہے، يا كوئى اور طريقہ.

اور جب وہ كوشش اور جدجھد كر كے نماز يا روزے كے ليے صحيح وقت پا لے تو اس كى عبادت صحيح اور كافى ہے چاہے بعد ميں اسے معلوم ہو جائے كہ اس كى عبادت وقت ميں ہوئى ہے يا بعد ميں، يا اس كو واضح نہ ہو تو بھى صحيح ہے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

} اللہ تعالى كسى بھى جان كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا {البقرۃ ( 286 ).

اور ارشاد بارى تعالى ہے:

} اللہ تعالى كسى بھى جان كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا {الطلاق ( 7 ).

جب يہ علم ہو گيا كہ اس نے عيد كے دن روزہ ركھا ہے تو اسے اس كى قضاء كرنا ہو گى كيونكہ عيد كے دن روزہ ركھنا صحيح نہيں.

ليكن اگر اسے بعد ميں علم ہوتا ہے كہ اس نے وقت سے قبل نماز ادا كر لى يا وقت سے قبل روزہ ركھ ليا تو اس پر نماز اور روزے كا اعادہ كرنا ضرورى ہے.

الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

" جمہور فقھاء كہتے ہيں كہ جس پر مہينوں ميں مشابہت ہو جائے اور اس پر مہينے خلط ملط ہو جائيں تو اس سے رمضان كے روزے ساقط نہيں ہونگے، بلكہ مكلف ہونے اور خطاب متوجہ ہونے كى بنا پر روزے ركھنا واجب ہيں.

اور اگر وہ كوشش كر كے روزے ركھتا ہے تو يہ پانچ حالتوں سے خالى نہيں:

پہلى حالت:

اشكال موجود رہنا اور منكشف نہ ہونا، وہ اس طرح كہ اسے معلوم نہ ہو كہ اس كا روزہ رمضان ميں تھا يا رمضان سے پہلے يا بعد ميں، تو اس كا روزہ كافى ہو گا، اور اس كے ليے دوبارہ روزہ ركھنا ضرورى نہيں كيونكہ اس نے كوشش كى ہے، اور اسے اسى چيز كا مكلف بنايا گيا ہے.

دوسرى حالت:

قيدى كا روزہ رمضان المبارك ميں ہو، تو يہ اس كے ليے كافى ہے.

تيسرى حالت:

جب قيدى كا روزہ رمضان كے بعد ركھا گيا ہو تو جمہور فقھاء كے ہاں يہ كفائت كر جائيگا.

چوتھى حالت:

اس كى دو وجہيں ہيں:

پہلى وجہ:

جب اس كا روزہ رمضان المبارك سے پہلے ركھا گيا ہو اور رمضان آنے سے قبل اس كو علم ہو جائے كہ اس نے روزہ رمضان سے قبل ركھ ليا تھا تو بغير كسى اختلاف كے اسے روزہ ركھنا ہو گا كيونكہ اسے وقت ميں روزہ ركھنے كا موقع مل گيا ہے.

دوسرى وجہ:

جب اس كا روزہ رمضان المبارك سے قبل ركھا گيا ہو اور رمضان المبارك گزرنے كے بعد علم ہو كہ اس نے تو روزہ رمضان سے قبل ركھ ليا ہے، اس ميں دو قول ہيں:

پہلا قول:

يہ روزہ رمضان كے روزے سے كفائت نہيں كريگا، بلكہ اس كى قضاء واجب ہو گى، مالكيہ اور حنابلہ كا مسلك يہى ہے اور شافعيہ كے ہاں يہى معتبر ہے.

دوسرى قول:

اس كے ليے يہ روزہ رمضان كے روزے سے كفائت كر جائيگا، مثلا جس طرح كہ اگر حجاج پر عرفہ كا دن مشتبہ ہو جائے اور وہ يوم عرفہ سے قبل وقوف عرفہ كر ليں، بعض شافعى حضرات كا قول يہى ہے.

پانچويں حالت:

قيدى كا روزہ رمضان كے كسى دن ميں ركھا گيا ہو اور كچھ رمضان كے بعد يا پہلے، چنانچہ جو روزہ رمضان ميں ہو يا اس كے بعد ہو وہ تو كفائت كر جائيگا، ليكن جو رمضان سے قبل ركھا گيا ہے وہ كفائت نہيں كريگا " انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 28 / 84 - 85 ).

مزيد آپ المجموع ( 3 / 72 - 73 ) اور المغنى ( 3 / 96 ) كا بھى مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب