سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

بیع مرابحہ کا حکم

سوال

ہمارے ہاں ایک ادارہ ہے جس کا کام یتیموں کے مال کی سرمایہ کاری کر کے اسے بڑھانا ہے۔ جو اس کمپنی کا انچارج ہے وہ اسلامی عدالتوں میں سپریم جج ہے۔ کمپنی کی بنیادی توجہ یتیموں کی دولت کی دیکھ بھال اور اسے مختلف تجارتی منصوبوں اور قرضوں میں استعمال کر کے سرمایہ کاری کرنا ہے۔ اس ادارے کے کام کرنے کا طریقہ درج ذیل ہے: جو شخص کوئی چیز (اپارٹمنٹ، کار، فرنیچر، زمین) خریدنا چاہتا ہے، اس کا انتخاب کرتا ہے، پھر وہ اس ادارے کے پاس جاتا ہے جو اپنے ملازمین میں سے ایک کو بھیجتا  کہ وہ جا کر اس چیز کی جانچ پڑتال کرے۔  پھر یہ ادارہ اس چیز کو خرید لیتا ہے اور اس شخص کو فروخت کر دیتا ہے جو اسے بیع مرابحہ کے ذریعے قسطوں میں خریدنا چاہتا ہے، اس کے منافع کا ایک مقررہ مارجن  یعنی 5 فیصد ہے۔ کیا اس قسم کے لین دین میں ربا کے ہونے کا کوئی خدشہ ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

یتیموں کی دیکھ بھال کرنا، ان کی دولت کو سرمایہ کاری میں لگا کر اسے بڑھانا یقیناً  بہت اچھا عمل ہے، ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اس کام کو کرنے والے لوگوں کو اللہ تعالی  جزائے خیر سے نوازے، ان کا یہ عمل بھی یتیم کی کفالت میں شامل ہو گا ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یتیم کی کفالت کرنے والے کے بارے میں فرمایا : (میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں ایسے ہوں گے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی شہادت اور درمیانی انگلی کے درمیاں تھوڑا سا فاصلہ کر کے اشارہ فرمایا۔) اس حدیث کو امام بخاری: (5304) اور مسلم : (2983) نے  روایت کیا ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ شرح صحیح مسلم میں کہتے ہیں:
"یتیم کی کفالت کرنے والے میں ہر وہ شخص شامل ہے جو  یتیم  کے اخراجات، لباس، تعلیم و تربیت وغیرہ میں سے کسی بھی معاملے میں یتیم  کا خیال رکھے۔ حدیث میں مذکور فضیلت ہر اس شخص کو حاصل ہو گی جو یتیم کی اپنے سرمائے سے کفالت کرے یا خود یتیم کے سرمائے کو اسی پر شرعی ولی ہونے کی وجہ سے خرچ کرے۔" ختم شد

یتیم کے مال کو تجارت میں لگانے کے حوالے سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول موجود ہے کہ: (یتیموں کے مال کا خیال رکھنا مبادا صدقہ ہی اسے نہ کھا جائے۔) اس اثر کو دارقطنی اور بیہقی نے روایت کیا ہے،  ان کا کہنا ہے کہ: "اس اثر کی سند صحیح ہے، اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اس کے شواہد بھی ملتے ہیں" یہ اثر نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے مرفوعاً بھی منقول ہے لیکن اس اثر کو البانی رحمہ اللہ نے مرفوعا اور موقوفا دونوں طرح ضعیف قرار دیا ہے۔
مزید کے لیے دیکھیں: "إرواء الغليل" (3/258)

دوم:
سوال میں مذکور صورت کو علمائے کرام { بيع المرابحة للآمر بالشراء}  کہتے ہیں، اس میں ہوتا یہ ہے کہ: انسان کو کسی چیز کی ضرورت ہے تو انسان کسی بھی کمپنی یا شخص کو جا کر کہتا ہے کہ  مجھے فلاں معین چیز چاہیے، اور  یہ ضرورت مند شخص یہ وعدہ کرتا ہے کہ اگر ادارہ یا شخص اس چیز کو خرید کے مجھے دے دے تو میں اسے مخصوص منافع کے عوض خرید لوں گا۔ تو یہ لین دین دو شرائط کی موجودگی میں صحیح ہو گا، وگرنہ صحیح نہ ہو گا:

پہلی شرط: فروختگی سے پہلے یہ کمپنی اس چیز کو پہلے خود خریدے ، لہذا  اپارٹمنٹ یا گاڑی حقیقی طور پر خود خریدے اور پھر طلب کنندہ  کو فروخت کرے۔

دوسری شرط: کمپنی  مطلوبہ چیز  طلب کنندہ کو فروخت کرنے سے پہلے اپنے قبضے میں لے، ہر چیز کا قبضہ اس کی نوعیت کے مطابق ہو گا، مثلاً: گاڑی کا قبضہ یہ ہے کہ اس کی جگہ سے اپنے پاس منتقل کر لے، اپارٹمنٹ کو قبضے میں لینے کا مطلب یہ ہے کہ مکان خالی کروا کر اس کی چابیاں آپ کے پاس آ جائیں وغیرہ وغیرہ۔

چنانچہ اگر بیع مرابحہ میں یہ دو شرائط نہیں پائی جاتیں یا دونوں میں سے کوئی ایک بھی مفقود ہوتی ہے تو  یہ بیع مرابح حرام ہو گی، اس کی تفصیل یہ ہے :

اگر بینک یا کمپنی نے مذکورہ چیز حقیقی معنوں میں خود نہیں خریدی ، بلکہ صارف کی طرف سے چیک کی صورت میں ادائیگی کر دی، تو یہ سودی قرض ہوا؛  کیونکہ اس صورت کی حقیقت یہ ہے کہ کمپنی یا بینک نے صارف کو چیز کی قیمت کی شکل میں - مثال کے طور پر -ایک لاکھ روپے قرض دیا ہے جو کہ صارف نے ایک لاکھ سات ہزار کی صورت میں واپس لوٹانا ہے۔

اسی طرح اگر کمپنی یا بینک کوئی چیز خرید کر اسے اپنے قبضے میں لینے سے پہلے فروخت کر دے تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کی مخالفت ہو گی جو کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ: (جب تو کوئی چیز خریدو تو اس وقت تک فروخت مت کرو جب تک اسے اپنے قبضے میں نہ لے لو۔) اس حدیث کو امام احمد: (15399) اور نسائی: (4613)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ  نے اسے صحیح الجامع: (342) میں صحیح قرار دیا ہے۔

اسی طرح سنن دارقطنی  اور ابو داود: (3499) میں سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: ( نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا کہ: سامان تجارت وہیں پر فروخت کر دیا جائے جہاں سے اسے خریدا گیا ہے، تا آں کہ تاجر انہیں اپنے گھروں میں نہ لے جائیں) اس حدیث کو البانیؒ نے صحیح ابو داود میں حسن قرار دیا ہے۔

اسی طرح صحیحین میں  سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص اناج خریدے تو اسے اس وقت تک فروخت نہ کرے جب تک اسے مکمل اپنے قبضے میں نہ لے لے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (2132) اور مسلم : (1525) نے  روایت کیا ہے۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں یہ رائے دی کہ: "میں سمجھتا ہوں کہ ہر چیز ہی اناج کی طرح ہے۔" یعنی اس مسئلے میں اناج اور غیر اناج میں کوئی فرق  نہیں ہے۔

اور جیسے کہ پہلے گزر چکا ہے کہ ہر چیز پر قبضہ اس کی نوعیت کے حساب سے مختلف ہو سکتا ہے۔

الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"منقولہ اشیا پر قبضہ انہیں اپنے قبضے میں لینے سے ہو گا، مثلاً: لباس، جانور اور گاڑی وغیرہ؛ اس لیے کہ ان کو قبضے میں لینے کا عرف یہ ہے کہ اپنے قبضے میں منتقل کر لیں۔ " ختم شد
"الشرح الممتع" ( 8/381)

دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (13/153)میں ہے کہ:
"جب کوئی کسی سے مخصوص خوبیوں والی یا معین گاڑی  خریدنے کا  مطالبہ کرے اور اسے وعدہ دے کہ جب آپ گاڑی خرید لو گے تو میں آپ سے گاڑی خریدوں گا، تو اس شخص نے گاڑی خرید لی اور اپنے قبضے میں لے لی، تو اب مطالبہ کنندہ کے لیے جائز ہے اس گاڑی کو نقد یا ادھار قسطوں کی شکل میں اس سے خرید لے، اس پر مخصوص منافع لینا بھی جائز ہے۔ یہ شکل معدوم کی بیع میں نہیں آتی؛ کیونکہ جس شخص سے خریدنے کا مطالبہ کیا گیا اس نے پہلے وہ چیز خریدی ہے اور پھر اسے اپنے قبضے میں لے کر آگے نقد یا ادھار فروخت کیا ہے۔ تاہم یہ جائز نہیں ہے کہ چیز کی خریداری سے پہلے اپنے دوست کو فروخت کر دے یا خریداری کی بعد اور قبضے میں لینے سے پہلے اسے فروخت کرے؛ کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی بھی  سامان کو اسے قبضے میں لینے سے پہلے فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے تا آں کہ تاجر اس چیز کو اپنے گھروں میں لے جائیں۔" ختم شد

اسلامی فقہ اکادمی کی جانب سے مرابحہ کی مذکورہ صورت کو جائز قرار دینے سے متعلق قرار داد جاری ہوئی ہے ، اس میں ہے کہ:
"اگر "بیع  المرابحہ للآمر بالشراء" اس وقت ہوتی ہے جب سامان  مطلوبہ شخص کی ملکیت میں آ جاتا ہے اور شرعی طور پر وہ چیز اس کے قبضے میں ہوتی ہے تو پھر یہ جائز بیع ہے، چنانچہ جب تک یہ چیز صارف کو پہنچنے سے پہلے مطلوبہ شخص کی ضمانت میں ہے ، اور صارف کو پہنچنے کے بعد اگر اس میں کوئی عیب نکل آئے  تو مطلوبہ شخص اس کا ذمہ دار ہے تو بیع کی شرائط پوری ہیں اور رکاوٹ کوئی نہیں ہے اس لیے یہ بیع جائز ہے۔" ختم شد
ماخوذ از: مجلة المجمع : (5/2/753، 965)

اس بنا پر: اگر سوال میں مذکور کمپنی واقعی حقیقی  طور پر سامان خریدتی ہے، محض پیپر ورک میں نہیں، پھر ان چیزوں کو خرید کر ان کی جگہ سے منتقل کر لیتی ہے تو یہ بیع صحیح ہے، اور اس طرح لین دین کرنا جائز ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب