جمعہ 19 جمادی ثانیہ 1446 - 20 دسمبر 2024
اردو

دفن ہونے كے ليے زمين خريدنے كا حكم

82184

تاریخ اشاعت : 24-03-2007

مشاہدات : 5416

سوال

كيا انسان كے ليے زمين كا ٹكڑا خريدنا جائز ہے تا كہ فوت ہونے كے بعد وہاں دفن ہو سكے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اس كا حكم زمين خريدنے اور اسے مخصوص كرنے كے تابع ہے تا كہ اس ميں دفن ہوا جا سكے:

اگر تو وہ اپنے ليے ايك باعزت مدفن تيار كرنا چاہتى ہے، كيونكہ وہ اپنے علاقے كے قبرستان كى اہانت ديكھ رہى ہو، يا پھر يہ ديكھے كہ ايك ہى جگہ پر اجتماعى دفن كيا جا رہا ہے ـ جيسا كہ بعض اسلامى ممالك ميں ہو رہا ہے ـ يا پھر وہ زمين وقف كرنا چاہتى ہے تا كہ اس ميں خود بھى اور دوسرے لوگ بھى دفن ہو سكيں، اس كے علاوہ دوسرے عذر اور شرعى مقاصد كى بنا پر تو اس وقت يہ زمين خريدنے اور اسے وہاں دفن كرنے كى وصيت كرنے ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ اس كا مقصد شرعى طور پر معتبر ہے، اور فقھى قاعدہ ہے: امور اس كے مقاصد كے ساتھ ہيں.

امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:

انسان كے ليے اپنى قبر كى جگہ خريدنے اور اس ميں دفن ہونے كى وصيت كرنے ميں كوئى حرج نہيں، عثمان رضى اللہ تعالى عنہ اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا اور عمر بن عبد العزيز رحمہ اللہ نے ايسا كيا تھا.

ديكھيں: المغنى ( 3 / 443 ) اور مزيد ديكھيں: احكام المقابر تاليف ڈاكٹر عبد اللہ السحيبانى ( 23 - 28 ).

اور اگر اس عورت كا مندرجہ بالا سابقہ امور ميں سے كوئى مقصد نہ ہو بلكہ وہ صرف اپنى قبر كو ممتاز كرنے اور دوسرے لوگوں سے اپنى جگہ كو خاص كرنا چاہتى ہو تو يہ مقصد شرعا غير معتبر ہے، كتاب و سنت ميں اس فعل كى كوئى دليل نہيں ملتى، بلكہ مقاصد شريعہ اور اہل علم كى كلام ميں تو ايسے دلائل پائے جاتے ہيں جو اس كى كراہت پر دلالت كرتے ہيں جن ميں سے چند ايك درج ذيل ہيں:

1 - فقھاء كرام نے عام قبروں ميں دفن كرنا مستحب قرار ديا ہے، تا كہ قبرستان كى زيارت كے ليے آنے والے عام مؤمن لوگوں كى دعاء بھى حاصل ہو سكے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتدا اور پيروى بھى كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ ميں سے كوئى صحابى بھى فوت ہوتا تو اسے بقيع ميں ہى دفن كرتے تھے.

الموسوعۃ الفقھيۃ ( 9 / 21 ) ميں درج ہے:

" دفن كے ليے سب سے بہتر اور افضل جگہ قبرستان ہے، يہ اس ليے كہ اس ميں اتباع بھى اور وہاں آنے والوں كى دعاء بھى حاصل ہوتى ہے، اور شہر اور علاقے كا قبرستان افضل اور بہتر ہے، اور گھر ميں دفن كرنا مكروہ ہے چاہے ميت چھوٹى ہى كيوں نہ ہو.

ابن عابدين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اور اسى طرح خاص مدفن ميں دفن كرنا جيسا كہ مدرسہ وغيرہ كے متولى اور بانى كرتے ہيں، اور اس كے قريب ہى مدفن بنا ليتے ہيں " انتہى.

ديكھيں: رد المختار ( 2 / 235 ) المجموع للنووى ( 5 / 245 ) مغنى المحتاج ( 2 / 52 ).

2 - پھر متوفى كى ملكيتى زمين ميں ورثاء كے ليے ضرر ہے كيونكہ اس طرح انہيں اس جگہ ميں تصرف كرنے سے ممانعت ہوگى، اور مسلمانوں كا عام قبرستان ہى كافى ہے.

كتاب " الفروع " ميں درج ہے:

" اور اگر متوفى اپنى ملكيتى زمين ميں دفن كرنے كى وصيت كرے تو اسے مسلمانوں كے ساتھ عام قبرستان ميں دفن كيا جائيگا، كيونكہ يہ ورثاء كو ضرر ہے " انتہى.

ديكھيں: الفروع لابن مفلح الحنبلى ( 2 / 278 ).

3 - اسى طرح خاص اور اپنى جگہ ميں دفن كرنے كى وصيت كرنا مستقبل ميں اس قبر كے ساتھ عبث كام كى باعث بن سكتا ہے، كيونكہ عام قبرستان تو سب لوگوں ميں ممتاز ہے، جہاں كوئى شخص بھى زيادتى كرتے ہوئے كوئى عمارت وغيرہ تعمير نہيں كر سكتا اور نہ ہى كھود سكتا ہے، تو اس طرح سب لوگ اپنے مردوں كو اذيت سے دور ركھ سكتے ہيں، ليكن خاص اور اپنى جگہ تو زيادتى كا باعث بن سكتى ہے، اور لوگوں كے ليے زمين ہتھيانے كا طمع اور قبر اكھاڑنے كا خدشہ بھى لاحق رہےگا.

4 - خاص زمين ميں دفن كرنا قبر كى تعيظم اور تقديس كا باعث بن سكتا ہے، تو اس طرح لوگ خيال كرينگے كہ اسے دوسرى قبروں سے كوئى خصوصيت حاصل ہے، يا يہ كسى ولى كى قبر ہے، تو اس طرح وہ شرك كئى انواع كے مرتكب ہونگے، يا پھر حرام تبرك كرينگے، جس كا سبب لوگوں كے مدفن سے عليحدہ ممتاز جگہ ميں دفن ہے.

5 - آخر ميں يہ كہ عليحدہ خاص جگہ ميں دفن كى وصيت سے خدشہ ہے كہ يہ تكبر اور لوگوں كے ساتھ دفن ہونے اور برابرى سے عليحدہ ہے، جيسا كہ بعض بادشاہوں اور امراء وزراء كى قبريں ہوتى ہيں، كہ وہ اپنے ليے مخصوص قبريں بنواتے ہيں.

اور يہ تو معلوم ہى ہے كہ تكبر كرنا عظيم گناہوں ميں شامل ہوتا ہے اور عادت يہ ہے كہ موت ہر متكبر اور جبر كرنے والے كا غرور توڑ كر ركھ ديتى ہے، تو اس ليے مسلمان شخص كو متكبر شخص اور اس كى عادت كى مشابہت نہيں كرنى چاہيے.

مندرجہ بالا سطور سے يہ واضح ہوا كہ: بغير كسى شرعى مقصد كے زمين خريد كر اس ميں دفن كرنے كى وصيت كرنا خلاف اولى ہے، اور اولى اور بہتر يہى ہے كہ مسلمانوں كے عام قبرستان ميں مسلمانوں كے ساتھ دفن ہوا جائے، اور مسلمانوں ميں نيك و صالح افراد كى دعاء اور بركت حاصل كى جائے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر كوئى متوفى شخص وصيت كرے كہ اسے كسى معين اور مخصوص جگہ پر دفن كيا جائے تو اس كى وصيت كو نافذ نہيں كيا جائيگا بلكہ وہ مسلمانوں كے ساتھ ہى دفن كيا جائيگا، كيونكہ سارى زمين برابر ہے اور پھر صحابہ كرام رضى اللہ عنہم ميں سے جب كوئى شخص كہيں بھى فوت ہو جاتا تو اسے دفن كر ديتے، تو اس وصيت كو پورا اور لاگو كرنا لازم نہيں، كيونكہ اس ميں كوئى شرعى مقصد نہيں " انتہى.

ديكھيں: لقاء الباب مفتوح ( 1 / 559 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب