سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

ميك اپ اور كاسٹميكس كى تجارت كا حكم

82338

تاریخ اشاعت : 17-07-2007

مشاہدات : 5389

سوال

كيا كاسٹميكس اور دوسرى ميك اپ كى اشياء كى تجارت كرنى جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ميك اپ كى اشياء كا استعمال عورتوں كے ہاں اگر نہ ہو تو وہ اس كے استعمال كے بغير بہت زيادہ خوبصورت لگيں، ليكن ايك عقلمند عورت كو اگر يہ علم ہو جائے كہ ان اشياء كے استعمال سے اسے نقصان اور ضرر ہو سكتا ہے تو وہ كبھى بھى يہ اشياء استعمال نہ كرے.

ميڈيكل رپورٹوں سے يہ واضح ہو چكا ہے كہ ميك اپ اور زيبائش كى يہ اشياء بہت سارى بيماريوں اور امراض كا باعث بنتى ہيں:

ان بيماريوں اور امراض ميں چہرہ كے زخم، اور ان اشياء كے مستقل استعمال سے جسم ميں الرجى پيدا ہوتى ہے، اور بہت سے ايسے نقصانات ہيں جو ان اشياء كے مستقل استعمال سے تاثير كى شكل ميں ظاہر ہوتے ہيں، مثلا جسم اور اعضاء ميں سرخى پن، اور ورم كا پيدا ہونا اور جلد كا پھٹنا.

سوال نمبر ( 26799 ) كے جواب ميں ہم نے لپ اسٹك كے متعلق كچھ ڈاكٹر حضرات كى كلام بيان كى ہے كہ:

" لپ اسٹك كے استعمال سے ہونٹوں ميں ورم پيدا ہو جاتى ہے، يا پھر ہونٹوں كى نرم اور باريك جلد خشك ہو كر پھٹ جاتى ہے، كيونكہ اس كے استعمال سے ہونٹوں كو محفوظ ركھنے والى بارك جلد زائل ہو جاتى ہے "

اس ڈاكٹر نے جو كچھ كہا وہ تو اپنى جگہ، ليكن ہم شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ تعالى كا ميك اپ كى اشياء كے متعلق سوال نمبر ( 26861 ) كے جواب ميں ان كا تفصيلى قول نقل كيا ہے:

اس ميں تفصيل ہے:

اگر تو اس سے خوبصورتى حاصل ہوتى ہے اور وہ چہرے كو كوئى ضرر اور نقصان نہ دے، اور نہ ہى كسى نقصان كا سبب اور باعث بنے تو پھر اس ميں كوئى گناہ اور حرج نہيں.

ليكن اگر وہ نقصان كا باعث اور سبب بنے مثلا چہرے وغيرہ كى كوئى جگہ سياہ ہو جائے، اس ميں دوسرے نقصانات پيدا ہوں تو پھر نقصان كى بنا پر اس كا استعمال ممنوع ہو گا "

اور سوال نمبر ( 26799 ) كے جواب ميں شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كا بھى اس جيسا قول بيان ہوا ہے.

يہ ميك اپ كى اشياء ميں اكثر اشياء حرام چيزوں اور مواد پر مشتمل ہوتى ہيں، مثلا نجاست، اور الكحل، يا ماں كے پيٹ ميں موجو بچہ، اور يورپ ميں تو ميك اپ كا سامان تيار كرنے كے ليے حمل ميں بچے كو جان بوجھ كر قتل كيا جاتا ہے.

ان ايام ميں عورتوں كى حالت كو ديكھنے والا شخص يہ معلوم كر سكتا ہے كہ دشمنان اسلام اپنى يہ برى اور غلط اشياء مسلمان عورتوں كو فروخت كرنے ميں كتنے كامياب رہے ہيں، اور جب ميك اپ سامان كى خريدارى رپورٹ كو ديكھا جائے تو اس معاملہ كے خطرناك ہونے كے ليے صرف يہى كافى ہے:

( 1997 ) كے سال صرف خليج كى عورتوں نے صرف عطر اور پرفيومز كى خريدارى پر تين مليار ريال صرف كے، اور بالوں كى رنگنے كے ليے پندرہ ملين ريال، اور لپ اسٹك كى خريدارى چھ سو ٹن سے بھى زيادہ ہوئى، اور نيل پالش كى خريدارى پچاس ٹن سے بھى زيادہ تھى، يہ تو صرف خليجى ممالك كى ايك برس كى رپورٹ ہے.

اور اگر ہم پورى زمين پر سب مسلمان عورتوں كا حساب اور تخمينہ لگائيں تو پھر كتنى رقم بنے گى ؟!

اور اگر ہم اس وقت اس كا سروے كريں تو پھر كيا حالت اور كتى رقم ہو گى ؟!

ہاں يہ ممكن ہے كہ طبعى اور نيچرل مواد سے تيار كردہ اشياء كا استعمال كر كے اس نقصان اور ضرر سے بچا جا سكتا ہے، اور پھر صرف خاوند كے ليے كسى مباح اور جائز چيز سے بناؤ سنگھار كرنا جائز ہے، جس كے كوئى نقصان نہ ہوں.

يہاں ايك چيز پر متنبہ رہنا چاہيے كہ: ميك اپ كى ان اشياء كا اگر عورت كے ليے استعمال مباح بھى كر ديا جائے تو اس كى تجارت اور فروخت كا حكم مختلف ہوگا، كيونكہ اكثر طور پر يہ اشياء خريدنے والى عورتيں فاحشہ اور بے پرد قسم كى ہوتى ہيں، جو اسے حرام ميں استعمال كرتى ہيں كہ وہ بازاروں اور سڑكوں پر بناؤ سنگھار كر كے غير محرم مردوں كے سامنے گھومتى ہيں، اور وسائل كو مقاصد كے احكام ديے جاتے ہيں.

اور جس شخص نے بھى ان عورتوں كا ان اشياء كے استعمال ميں تعاون كيا، چاہے وہ تعاون يہ اشياء تيار كرنے كى صورت ميں ہو، يا پھر باہر سے منگوا كر ہو يا فروخت كرنے كى صورت ميں تو اس نے اس برائى كو پھيلانے ميں تعاون كيا، اور وہ اس نقصان كو عام كرنے كا باعث بنا لہذا وہ اس كے گناہ اور فعل ميں شريك ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور تم نيكى و بھلائى اور تقوى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہا كرو، اور برائى و گناہ اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو المآئدۃ ( 2 ).

تو اس ليے جب بناؤ سنگھار اور ميك اپ كى يہ اشياء نقصانات اور ضرر سے خالى ہوں اور فروخت بھى اسے كى جائيں جو يقينا يا گمان غالب ميں اس كا مباح اور جائز استعمال كرے اس كے ليے يہ اشياء خريدنا اور فروخت كرنا جائز ہو گا، وگرنہ اس كى خريد و فروخت حرام ہے.

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 41052 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب