الحمد للہ.
اول:
معاصر علماء كرام نے فوٹو گرافى سے تصوير بنانے ميں اختلاف كيا ہے، اور سوال نمبر ( 10668 ) اور ( 12786 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے كہ راجح يہى ہے كہ يہ حرام ہے.
دوم:
جو علماء كرام اسے مباح كہتے ہيں اور حرمت كے قائل نہيں انہوں نے بھى اس كے ليے چند شرائط عائد كى ہيں:
1 - اس تصوير كى غرض اور مقصد مباح ہو: مثلا پاسپورٹ يا لائسنس اور شناختى كارڈ بنانا ہو.
2 - مصور تصوير ميں كوئى دخل اندازى يعنى اس ميں تبديلى يا خوبصورتى جيسا كام نہ كرے.
3 - وہ تصوير حرام نہ ہو، مثلا بے پرد عورت وغيرہ كى تصوير نہ ہو.
يہ واضح ہے كہ آپ كے سوال ميں يہ شرائط لاگو نہيں ہوتى اور يہ ان شرائط كے بغير ہے، اس سے يہ واضح ہوا كہ آپ نے جو سوال پوچھا ہے يہ كام كرنا حرام ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس فوٹو گرافى كے متعلق ہمارى رائے يہ ہے كہ: يہ آلہ اور كيمرہ جو فورى طور پر تصوير بنا كر نكالتا ہے، اور انسان كا اس ميں كوئى بھى عمل اور دخل نہيں، ہمارى رائے ميں يہ تصوير ميں شامل نہيں ہوتى، بلكہ يہ تو اس آلہ كے ساتھ وہ شكل و صورت نقل كرنا ہے جو اللہ عزوجل نے بنائى ہے.
يہ تو ڈھالنا ہے جس ميں بندے كا تصوير كے اعتبار سے كوئى دخل نہيں، اور احاديث تو اس تصوير بنانے كے متعلق ہيں جس ميں بندے كا عمل دخل ہو، اور وہ اس سے اللہ تعالى كے پيدا كرنے كا مقابلہ كرے، يہ اس طرح واضح ہو سكتا ہے كہ اگر آپ كو كوئى شخص خط لكھے اور آپ فوٹو گرافى كے آلہ سے اس كى تصوير بنائيں، تو يہ تصوير اس آلے كو حركت دينے اور تصوير كھينچنے والے كے عمل ميں شامل نہيں، كيونكہ ہو سكتا ہے جس نے وہ تصوير كھينچى ہے اور اس آلے كا بٹن دبايا ہے، وہ بالكل لكھنا پڑھنا جانتا بھى نہ ہو، اور لوگ جانتے ہيں كہ يہ پہلے شخص كى لكھائى ہے، اور دوسرے شخص يعنى تصوير بنانے والے كا اس ميں كوئى فعل شامل نہيں.
ليكن اگر يہ فوٹو گرافى كى تصوير كسى حرام مقصد اور غرض كى بنا پر بنائى جائے تو پھر يہ وسائل تحريم كى بنا پر حرام ہو گى " انتہى.
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 2 ) سوال نمبر ( 318 ).
واللہ اعلم .