اتوار 23 جمادی اولی 1446 - 24 نومبر 2024
اردو

دارھى اور سر سے سفيد بال نوچنے كى كراہت

82378

تاریخ اشاعت : 18-06-2008

مشاہدات : 6349

سوال

بالوں ميں سے سفيد بال نوچنے كا حكم كيا ہے، اور كيا سر اور داڑھى كے بالوں ميں فرق ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بڑھاپے كے سفيد بال مسلمان شخص كے ليے روز قيامت نور كا باعث ہونگے، جيسا كہ صحيح احاديث ميں اس كا ذكر ملتا ہے.

سنن ترمذى ميں كعب بن مرۃ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئےسنا:

" جو اسلام ميں بوڑھا ہو گيا تو اس كے ليے روز قيامت وہ نور كا باعث ہو گا "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1634 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور مسند احمد اور ترمذى ميں ہى عمرو بن عبسۃ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جو شخص اللہ كى راہ ميں بوڑھا ہو گيا تو روز قيامت اس كے ليے نور كا باعث ہو گا "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1635 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور بيہقى نے شعب الايمان ميں عبد اللہ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" سفيد بال مومن كے ليے نور ہيں، جو شخص بھى اسلام ميں بوڑھا ہو جائے تو ہر بال كے بدلے ايك نيكى حاصل ہوگى، اور ايك درجہ بلند ہو گا "

سلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 1243 ).

اور اس حديث كے شواہد ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" سفيد بال مت نوچو، كيونكہ يہ روز قيامت نور ہو گا، جس كسى كا بھى كوئى بال اسلام ميں سفيد ہو گيا تو ہر بال كے بدلے اسے نيكى ملےگى، اور ايك درجہ بلند كيا جائيگا "

اسے ابن حبان نے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ ( 3 / 247 ) ميں اس كى سند كو حسن قرار ديا ہے.

اور ابن عدى اور بيہقى نے " شعب الايمان " ميں فضالۃ بن عبيد رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" سفيد بال مومن كے چہرے كا نور ہو گا، تو جو چاہتا ہے وہ اپنے نور كو نوچ لے "

ديكھيں: السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 1244 ).

يہ سب احاديث سر يا دارھى سے سفيد بال نوچنے كى كراہت پر دلالت كرتى ہيں، اور ان عمومى احاديث كى بنا پر اس كے حكم ميں كوئى فرق نہيں، كيونكہ احاديث ميں سر يا داڑھى كے بال كو مخصوص نہيں كيا گيا، تو اس سے يہ علم ہوا كہ دونوں كو حكم شامل ہے.

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" سفيد بال نوچنا مكروہ ہے، كيونكہ عمرو بن شعيب عن ابيہ عن جدہ كى حديث ميں ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم سفيد بال مت نوچو، كيونكہ روز قيامت يہ مسلمان شخص كے ليے نور ہو گا "

يہ حديث حسن ہے اسے ابو داود، ترمذى، نسائى وغيرہ نے حسن سند كے ساتھ روايت كيا ہے.

ہمارے اصحاب كا بھى يہى كہنا ہے كہ يہ مكروہ ہے، غزالى، بغوى اور دوسروں نے اس كى صراحت كى ہے.

اور اگر كہا جائے كہ: صريح اور صحيح نہى كى بنا پر يہ حرام ہے تو بھى كوئى بعيد نہيں، اور سر اور داڑھى ميں سے سفيد بال نوچنے ميں كوئى فرق نہيں " انتہى.

ديكھيں:المجموع للنووى ( 1 / 344 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب