الحمد للہ.
اول:
جہاں سفر كر كے آپ جا رہے ہيں وہاں آپ كا چار يوم سے زيادہ رہنے كا عزم ہے تو آپ وہاں پہنچتے ہى مقيم كے حكم ميں ہونگے، اس ليے آپ كو مقيم كى طرح نماز پورى ادا كرنا لازم ہے، اور قصر كرنى جائز نہيں.
چنانچہ آپ سفر كے دوران قصر كر سكتے ہيں، جب آپ اس ملك اور علاقے ميں پہنچ جائيں تو نماز پورى كرينگے كيونكہ آپ مقيم كے حكم ميں ہيں.
مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:
" جس سفر ميں سفر كى رخصت پر عمل كرنا مشروع ہے جسے عرف سفر شمار كرے، اس كى مسافت تقريبا اسى كلو ميٹر ہے، چنانچہ جو شخص اتنى يا اس سے زيادہ مسافت كا سفر كرے اس كے ليے سفر كى رخصتوں موزوں پر تين يوم مسح، نماز جمع اور قصر كرنا، اور رمضان ميں روزہ افطار كرنا، ان رخصتوں پر عمل كرنا مشروع ہے.
يہ مسافر اگر كسى شہر ميں چار دن سے زيادہ رہنے كى نيت كرے تو وہ سفر كى رخصت پر عمل نہيں كرے گا، اور جب وہ چار يا اس سے كم دن رہنے كى نيت كرے تو وہ سفر كى رخصتوں پر عمل كرسكتا ہے.
اور وہ مسافر جو كسى شہر ميں رہے اور اسے اپنى ضرورت ختم ہونے كا علم نہ ہو اور نہ ہى اس نے رہنے كى مدت متعين كى ہو تو وہ بھى سفر كى رخصت پر عمل كرے گا چاہے مدت جتنى بھى طويل ہو جائے، اس ميں سمندرى يا خشكى كے سفر كا كوئى فرق نہيں ) انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 99 ).
دوم:
رہا نماز جمع كرنے كا مسئلہ چنانچہ مسافر كے ليے ظہر اور عصر، اور مغرب اور عشاء كى نمازيں جمع تقديم يا جمع تاخير كر ادا كرنى جائز ہيں جس طرح اسے آسانى ہو ادا كرے، اور افضل يہ ہے كہ ايسا مشقت كى صورت ميں كرے، اگر مشقت نہ ہو تو ہر نماز اس كے وقت ميں ادا كرنا افضل ہے.
اس بنا پر آپ سفر كے دوران نمازيں جمع كر سكتے ہيں، اور جب آپ منزل مقصود پر پہنچيں جہاں آپ نے ايك ماہ رہنے كا عزم كيا ہے تو آپ ہر نماز وقت ميں اور پورى ادا كرينگے.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 49885 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
سوم:
آپ يہ علم ميں ركھيں كہ مسافر پر بھى دوسروں كى طرح نماز نماز باجماعت ادا كرنا فرض ہے، اس كى تفصيل سوال نمبر ( 21498 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے آپ اس كا مطالعہ كريں، اور مسجد ميں نماز باجماعت ادا كرنے كى كوشش كريں.
واللہ اعلم .