ہفتہ 22 جمادی اولی 1446 - 23 نومبر 2024
اردو

اخبار و جرائد ميں كام كرنے كا حكم

82704

تاریخ اشاعت : 05-11-2007

مشاہدات : 7678

سوال

ميں اپنے ملك كے ايك قومى اخبار ميں ملازمت كرتا ہوں جسے اسلامى ملك ہونا چاہيے تھا ليكن وہ ايسا ہے نہيں، اور آپ اخبار ميں حكومتى نفاق اور دھوكہ كا بخوبى علم ركھتے ہيں، ميں ان جرائد كى صفحات كى تنفيذ كى خاص قسم ميں ملازمت كرتا ہوں، كيا ميرى تنخواہ حلال ہے ـ خاص كر ميرے ملك ميں ملازمت كے مواقع بہت ہى مشكل ہيں، اور ميں نے مجبورا يہ ملازمت كى ہے، ابتدا ميں يہاں ملازمت كے ليے تيار نہ تھا ـ ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہمارى دعا ہے كہ اللہ تعالى مسلمانوں كى حالت كى اصلاح فرمائے اور ذرائع ابلاغ كے نمائندوں اور مالكان كو وہ كام كرنے كى توفيق دے جس ميں لوگوں كے ليے خير و بھلائى ہو، اور وہ انہيں صدق و عفت نشر كرنے كى توفيق سے نوازے.

افسوس كے ساتھ كہنا پڑتا ہے كہ! كوئى ہى اخبار يا ميگزين ايسا ہو گا جو غير شرعى اشياء سے خالى ہو جس كى بنا پر اس كى خريد و فروخت ترك كرنا واجب ہوتى ہے، جس كى بنا پر اس ميں ملازمت تو بالاولى نہيں كرنى چاہيے، ان ممنوعہ كام ميں درج ذيل امور شامل ہيں:

1 - ستاروں اور برج كى بنا پر حالت معلوم كرنا اور كہانت كا پايا جانا، يہ كبيرہ گناہ ميں شامل ہوتا ہے، اور بعض اوقات تو ايسا كرنے والا شخص كفر كا مرتكب بھى ٹھرتا ہے.

2 - فضائى چينلوں كے پروگراموں كى شيڈول اخبار ميں پايا جانا، اور غالب طور پر يہ پروگرام برائى اور فحاشى ہى نشر كرتے ہيں.

3 - فاحشہ اور فاجر قسم كى عورتوں كى تصاوير.

4 - بنكوں اور حرام اشياء كى فروخت كرنے والى كمپينوں كے اعلانات كا پايا جانا.

5 - اخبار ميں كارٹون كى شكل ميں مختلف خاكے پائے جانا، جو كہ حرام ہيں، اس ليے كہ يہ غالبا ذى روح اشياء كى ہاتھ كے ساتھ تصاوير اور رسم بنائے جاتے ہيں.

6 - حكمران اور حكومتوں كى مدح سرائى كركے منافقت كرنا، حالانكہ وہ اس مدح سرائى كے مستحق نہيں.

7 - باطل قسم كے فتاوى جات كے ذريعہ شريعت اسلاميہ پر زبان درازى كرنا، اور منحرف قسم كے مقالات اور كالم شائع كر كے اسلام ميں طعن و تشنيع كرنا.

اس كے علاوہ كئى ايك غير شرعى كام پائے جاتے ہيں، جو كہ ملك كے نظام اور قانون كے مطابق، اور اخبار كى ادارت اور قانون كے مطابق كم اور زيادہ اور قوى اور كمزور ہوتے ہيں.

اس ليے اہل علم نے اس قسم كى ممنوعہ اشياء پر مشتمل اخبار اور ميگزين كى خريد و فروخت كے منع كے فتوى صادر كيے ہيں، تو اگر اس ميں كئى ايك ممنوعات اور غير شرعى كام جمع ہو جائيں تو پھر كيا حكم ہو گا ؟!

اور پھر اگر ان اخبارات اور ميگزين كو جارى كرنے اور اس كا خيال ركھنے اور نگرانى كرنے كا كام ہو تو پھر كيا حكم ہو گا ؟ . !

شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

آپ كے ليے ـ اور نہ ہى آپ كے علاوہ كسى اور كے ليے ـ عورتوں كى تصاوير، يا شريعت مطہرہ كے مخالف كام اور مقالات پر مشتمل اخبارات اور ميگزين فروخت كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور تم نيكى و بھلائى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہو اور برائى اور معصيت اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو، اور اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو، يقينا اللہ تعالى سخت سزا دينے والا ہے .

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 2 / 371 ).

2 - شيخ عبد اللہ بن جبرين حفظہ اللہ سے دريافت كيا گيا:

ميں اكيس برس كا جوان شخص ہوں ميرے والد صاحب فوت ہو چكے ہيں، اور ميرے پانچ بھائى اور والدہ زندہ ہيں، والد صاحب نے تركہ ميں كئى ايك تجارتى مراكز اور دوكانيں چھوڑى ہيں، جن ميں ايك دوكان اخبار اور ميگزين، اور دينى كتابيں اور قرآن مجيد كى فروخت كے ليے ہے اور اس ميں غير مسلم شخص ملازمت كرتا ہے، ميں نے اپنے بڑے بھائى سے گزارش كى كہ اس ملازم كے ليے قرآن مجيد اور دينى كتب كو چھونا جائز نہيں، اور اسى طرح جن اخبار اور ميگزين ميں تصاوير ہيں ان كى فروخت بھى جائز نہيں، ميں نے جو اسے كہا اس نے اس كا انكار كر ديا تو مجھے كيا كرنا چاہيے، كيا ميرے ليے اپنے بھائيوں كے ساتھ بيٹھنا اور كھانا پينا جائز ہے؟

شيخ نے جواب ديا:

ہم آپ كے ورع اور حرام يا مشتبہ چيز سے نكلنے پر آپ كے شكرگزار ہيں، اور آپ كو نصيحت كرتے ہيں كہ آپ اس كافر ملازم كو فارغ كرنے كى كوشش كريں، آپ كو اس كے بدلے ان شاء اللہ كوئى مسلمان امانتدار ملازم مل جائيگا جو اس سے بھى بہت بہتر ہو گا.

رہا اخبارات اور جرائد كا مسئلہ تو اس كے متعلق گزارش ہے كہ اگر تو وہ اخبارات اور ميگزين فحش تصاوير اور فسق و فجور كى دعوت پر مشتمل ہيں تو ان كى فروخت اور نفع حاصل كرنا اور ان كى تجارت كرنا حرام ہے.

اور اگر ان ميں پائى جانے والى تصاوير عام ہيں اور فحش اور گندى تصاوير سے خالى ہوں تو انہيں فروخت كرنے ميں كوئى حرج نہيں، تو اس ميں پائے جانے والے مفيد علوم اور مباح كلام كى فروخت اور قيمت ہو گى اور اس ميں پائى جانے والى تصاوير غير مقصود ہونگى، ہم آپ كو نصيحت كرتے ہيں كہ آپ ان كے ساتھ بيٹھيں اور كھائيں ان شاء اللہ آپ پر كوئى گناہ نہيں ہو گا "

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 2 / 371 ).

3 - شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:

اخبارات ميں بنائے جانے والے كارٹون، اور بعض اخبارات اور ميگزينوں ميں ديكھے جانے والے بعض اشخاص كے رسوم اور تصاوير كا حكم كيا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ نے جواب ديا:

مذكورہ خاكے اور كارٹون جائز نہيں، يہ ان منكرات ميں شامل ہوتے ہيں جو اس وقت عام ہو چكے ہيں جن كا ترك كرنا تصاوير كى حرمت پر دلالت كرنے والى عمومى احاديث كى بنا پر واجب ہے، كہ ہر ذى روح كى تصوير حرام ہے چاہے وہ كسى آلہ كے ساتھ بنائى جائے يا پھر بغير آلہ كے يا ہاتھ كے ساتھ.

ان احاديث ميں صحيح بخارى كى درج ذيل روايت شامل ہے:

ابو جحيفہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود كھانے اور سود كھلانے اور تصوير بنانے والے پر لعنت فرمائى "

اور اس ميں صحيح بخارى اور صحيح مسلم كى درج ذيل روايت بھى شامل ہے جس ميں بيان كيا گيا ہے كہ:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" روز قيامت سب سے شديد ترين عذاب مصوروں كو ہو گا "

اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" بلا شبہ ان تصاوير بنانے والوں كو روز قيامت عذاب ديا جائيگا اور انہيں كہا جائيگا: جو تم نے پيد كيا اسے زندہ كرو "

اس كے علاوہ بھى اس موضوع كےمتعلق بہت سارى احاديث ہيں، اور اس سے كسى كو مستثنى نہيں كيا جا سكتا، صرف وہى مستثنى ہے جس كى تصوير بنانے كى ضرورت ہو، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

حالانكہ اللہ تعالى نے تم پر جو حرام كيا ہے اس كى تفصيل بيان كر دى ہے، مگر جس پر تم مجبور كر ديے جاؤ .

اللہ تعالى سے ميرى دعا ہے كہ وہ مسلمانوں كو اپنے رب كى شريعت كى پابندى كرنے اور اپنے نبى كى سنت پر عمل پيرا ہونے كى توفيق نصيب فرمائے، اور اس كى مخالفت سے بچائے، بلا شبہ وہ سب سے بہتر اور اچھا ہے جس سے مانگا جاتا ہے.

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 362 ).

4 - اور شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

ميں ان اخبارات كے ذمہ داران كو كہتا ہوں: يہ لوگ جب اللہ تعالى كے سامنے اس دن كھڑے ہونگے، اور ان سے سوال و جواب ہو گا جس دن نہ تو كوئى مال كام آئيگا اور نہ ہى اولاد صرف وہى شخص كامياب ہوگا جو اللہ كے پاس سيلم القلب ہو كر گيا.

جو لوگ يہ منكرات اور برائياں پھلاتے اور نشر كرتے ہيں انہيں روز قيامت جواب دينا ہوگا كہ انہوں نے جو كچھ نشر كيا تھا اس كى جرات اور بنا پر جو نتائج سامنے آئے اس كے وہى ذمہ ہيں، يقينا جب كوئى معاشرہ ايك جانوروں كا معاشرہ بن جائے تو پھر حق كو حق كہنا اور باطل كا انكار كرنا ممكن نہيں رہتا، اس كا اللہ تعالى كے اوامر اور احكام كے تابع ہونا ممكن نہيں رہتا چہ جائيكہ وہ اللہ كے بندوں كے تابع ہو، تو اس طرح وہ بد نظمى پيدا ہوتى ہے جس كى كوئى حدود ہى نہيں ہوتى ....

اور شيخ كا يہ بھى كہنا ہے:

ان اخبارات اور جرائد كى خرابيوں ميں يہ بھى شامل ہے كہ: دل ميں وہ محبت پيدا ہوتى ہے اور دل ان خيالات ميں غرق ہو جاتا ہے جس كى كوئى حقيقت نہيں ہوتى، تو يہ اس سراب كى طرح ہے جسے پياسا شخص پانى سمجھ بيٹھے اور جب وہ اس كے پاس آئے تو اسے كچھ بھى نہ ملے، اور اللہ كو اس كے پاس پائے تو اللہ اس كا حساب پورا پورا اسے دے اور اللہ تعالى جلد حساب لينے والا ہے.

اور ان اخبارات اور ميگزين كى خرابيوں ميں يہ بھى شامل ہے كہ:

ان ميں جو تصاوير اور فيشن ديكھا جاتا ہے وہ اخلاق و عادات پر اثر انداز ہوتى ہيں، تو اس طرح معاشرہ ان خراب اور فتنہ و فساد ميں رچے ہوئے معاشرے ميں بدل جاتا ہے.

تو اے مومن مسلمانوں تم ان اخبارات اور ميگزين كا بائيكاٹ كرو اور ان كے نشر كرنے والوں كا گناہ ميں معاون مت بنو؛ كيونكہ تمہارا ان اخبارات اور ميگزين كو خريدنا ان كى تقويت كا باعث ہے، اور انہيں مالى طور پر مضبوط كرتا ہے، اور انہيں اس سے بھى برى اور فحش اشياء نشر كرنے ميں ممد و معاون بنتا اور تيار كرتا ہے.

تو اس طرح اس ميں شركت كرنے والا اور خريدار شخص اور اسے قبول كرنے والا گناہ و معصيت اور ظلم و زيادتى ميں معاون بنتا ہے، مومنوں آپ اللہ تعالى كے اس فرمان كو ياد كرو جس ميں اللہ تعالى كا فرمان كچھ اس طرح ہے:

اے ايمان والو تم اپنى اور اپنے اہل و عيال كى جانوں كو آگ سے بچاؤ جس كا ايندھن لوگ اور پتھر ہيں، اس پر ايسے سخت قسم كے فرشتے مقرر ہيں جو اللہ كى نافرمانى و معصيت نہيں كرتے اور وہى كچھ كرتے ہيں جس كا انہيں حكم ديا جاتا ہے .

اے اللہ كيا ميں نے پہنچا ديا، اے اللہ كيا ميں نے پہنچا ديا ؟ اے اللہ كيا ميں نے پہنچا ديا ؟ اے اللہ جو كچھ ميں كہہ رہا ہوں اس پر ميرا گواہ بن جا، اور ان پر گواہ بن جا جو يہ سن رہے ہيں، اور تم پر ضرورى اور واجب ہے، ميں پھر كہتا ہوں اور اسے تكرار سے كہتا ہوں: تم پر واجب اور ضروى ہے كہ تم ان اخبارات اور ميگزين كا بائيكاٹ كرو اور اس ميں سے جو بھى تمہارے پاس ہے اسے جلا كر راكھ كر دو، تا كہ تم اس كے گناہ سے بچ سكو "

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 381 - 383 ) مختصرا.

5 - اور شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" عورتوں كى تصاوير پر مشتمل يا زنا اور فحاشى يا لواطت، يا نشہ آور اشياء استعمال كرنے كى دعوت دينے والے، يا باطل كى دعوت دينے اور باطل كا تعاون كرنے والے اخبارات اور ميگزين نكالنے جائز نہيں، اور ان اخبارات ميں ملازمت كرنى بھى جائز نہيں نہ تو لكھ كر اور نہ ہى اس كى ترويج كر كے؛ كيونكہ ايسا كرنے ميں گناہ و معصيت اور ظلم و زيادتى، اور زمين ميں فساد مچانے اور نشر كرنے، اور معاشرہ كو خراب كرنے اور رذيل اور فحش اشياء كو نشر كرنے ميں معاونت ہوتى ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا اپنى كتاب مبين ميں فرمان ہے:

اور تم نيكى و بھلائى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہو اور برائى و گناہ اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو اور اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو، يقينا اللہ تعالى سخت سزا دينے والا ہے .

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 384 ).

6 - شيخ عبد اللہ بن جبرين حفظہ اللہ سے دريافت كيا گيا:

جناب فضيلۃ الشيخ ہم آپ سے گزارش كرتے ہيں كہ بعض ميگزين اور اخبارات ميں ستارے اور برج كيا كہتے ہيں يا آپ كا ہفتہ كيسا رہے گا كے عنوان سے نشر ہونے والے كلام كے بارہ ميں شرعى حكم كيا ہے، مثلا برج ثور يا برج عقرب وغيرہ اور ان كا گمان يہ ہوتا ہے كہ مثلا جو برج ثور ميں پيدا ہوا ہے اسے يہ كچھ ہو گا... وہ فلان ملك كا سفر كريگا... اور اس قسم كا غيبى دعوى كرتے ہيں، اور ہر برج كے خاص حالات ہيں جس ميں پيدا ہونے والے افراد اس كا شكار ہوتے ہيں ؟

شيخ كا جواب تھا:

" برج سورج كى منزلوں كو كہتے ہيں جو كہ بارہ برج ہيں، اللہ سبحانہ وتعالى نے اس كى قسم كھاتے ہوئے فرمايا ہے:

اور قسم ہے برجوں والے آسمان كى .

اور يہ برج درج ذيل ہيں:

حمل، ثور، جوزاء، سرطان، اسد، سنبلہ، ميزان، عقرب، قوس، جدى، دلو، حوت.

اور يہ عام مہينے ہى ہيں، ان ميں پيش آنے والے حالت اور واقعات كا علم صرف اللہ تعالى كو ہى ہے اس كے علاوہ كوئى اور نہيں جانتا كہ اس ميں كيا ہو گا، اس ليے جو كوئى بھى دعوى كرے كہ برج ثور ميں يہ كچھ ہو گا، يا برج عقرب ميں ايسا ہوگا، تو اس نے علم غيب كا دعوى كيا، اور علم غيب تو صرف اللہ تعالى ہى كو ہے.

اور ستاروں يا برج كو ديكھ كر اٹكل پچو يا تخمينہ لگانا جائز نہيں صرف وہى جو اس كے دين اور اسلام كو فائدہ دے .

واللہ تعالى اعلم.

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 386 ).

7 - مستقل فتوى كميٹى كے علماء سے درج ذيل سوال كيا گيا:

اپنے گھر ميں تصاوير اور حرام كالم والے اخبار اور ميگزين لانے كى اجازت دينے والے كے متعلق كيا حكم ہے ؟

علماء كا جواب تھا:

" مسلمان شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ اپنے گھر ميں الحادى قسم كے اخبار يا ميگزين لائے، يا اسے مقالہ جات لائے جو بدعت و گمراہى كى دعوت ديتے ہوں، يا فحاشى و عريانى كى دعوت ديں، كيونكہ يہ عقيدہ و اخلاق كى خرابى كا باعث بنتے ہيں، اور خاندان كا بزرگ شخص اپنے خاندان اور گھرانے كا مسئول اور ذمہ دار ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" مرد اپنے گھر كا ذمہ دار ہے، اور اس سے اس كى رعايا كے بارہ ميں باز پرس كى جائيگى "

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 187 ).

8 - الشيخ عبد اللہ بن جبرين حفظہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

اخبار ### مسلمانوں كى خبريں جارى كرنے ميں بہت غلط رويہ اختيار كر رہا ہے، اور مسلمانوں كے معاملات اور امور كو صحيح طور پر پيش نہيں كرتا بلكہ انہيں چھپاتا ہے، اور اسلام كى صورت بگاڑ كر پيش كرتا ہے، اور اسلامى معاملات كے خلاف لكھتا رہتا ہے، اور اسلامى قضيہ جات كو حل كرنے كا ايسا طريقہ سے علاج پيش كرتا ہے جو مصلحت اسلامى كى كسى بھى حالت ميں خدمت نہيں بلكہ اسے نقصان ہى ديتا ہے، اسى طرح اس ميں كفار اداكاروں اور فنكاروں وغيرہ كى فحش تصاوير بھى ہوتى ہيں، اس اخبار كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے ؟ اور اس كى خريد و فروخت اور اسے تقسيم كرنے اور اسے ركھنے كا حكم كيا ہے ؟

شيخ كا جواب تھا:

" اگر تو حال وہى ہے جو سوال ميں اوپر بيان كيا گيا ہے تو پھر اس كا لين دين كرنا اس اخبار كى ترويج اور اس كى تشہير كا باعث ہے، اور اس ميں جو نقصانات اور اعتقادى خرابياں ہيں انہيں پيدا ہونے كا باعث ہے، اس ليے ميرى رائے يہ ہے كہ اس اخبار كو نہيں ركھنا چاہيے،اور نہ ہى اس كى خريد و فروخت كى جائے اور نہ ہى تقسيم كيا جائے.

ميں ہر ناصح شخص كو يہ كہنا چاہتا ہوں كہ وہ اس ميں حصہ ڈالنے يا اسے نشر كرنے سے اجتناب كرے؛ كيونكہ يہ اسے مارنے اور اس كى ياد تك ختم كرنے كا ذريعہ ہے، حتى كہ وہ اپنے اسلوب كو تبديل كر كے اس سے بہتر طريقہ اختيار نہ كر لے.

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 388 ).

خلاصہ يہ ہوا كہ:

آپ نے اہل علم كے فتاوى جات اور جو مخالف شريعت اخبارات اور ميگزين ميں ملازمت كى حرمت كے اسباب انہوں نے بيان كيے ہيں انہيں ديكھ ليا، اور اسى طرح اس كى خريد و فروخت كا حكم بھى آپ نے پڑھ ليا اور آپ نے ديكھا كہ ہم نے جواب كى ابتدا ميں جو كچھ پيش كيا ہے اس سب كى بنا پر آپ كے ليے ممكن ہے كہ آپ ان فتاوى جات ميں سوچ و بچار كريں اور جب اخبار ميں آپ ملازمت كر رہے ہيں اسے اس پر فٹ كريں اگر تو اس ميں شرعى ممانعت موجود ہو تو پھر آپ اس ميں كام نہ كريں اور اپنے آپ ہى اللہ تعالى سے ڈريں.

اور يہ جان ليں كہ اگر آپ اللہ كا تقوى اختيار كرتے ہيں تو اللہ تعالى نے آپ سے خير و بھلائى كا وعدہ كيا ہے، اور سنت نبويہ ميں بھى ہے كہ اگر آپ يہ كام اللہ تعالى كے ليے ترك كر ديں تو آپ كے ليے باعث مسرت ہو گا اور آپ كو خير وبھلائى حاصل ہو گى.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتا ہے اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے رزق بھى وہاں سے ديتا ہے جہاں سے اسے وہم و گمان بھى نہيں ہوتا، اور جو كوئى بھى اللہ تعالى پر بھروسہ اور توكل كرتا ہے اللہ تعالى اسے كافى ہو جاتا ہے، يقينا اللہ تعالى اپنا كام پورا كرنے والا ہے، اللہ تعالى نے ہر چيز كا اندازہ مقرر كر ركھا ہے الطلاق ( 2 - 3 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے بھى كوئى چيز اللہ تعالى كے ليے ترك كى تو اللہ تعالى اسے اس كے عوض ميں اس سے بھى بہتر چيز عطا فرماتا ہے "

اسے علامہ البانى رحمہ اللہ نے اپنى كتاب " حجاب المراۃ المسلۃ " كے صفحہ ( 49 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

اور اگر آپ ديكھيں كہ آپ كا اخبار كى ملازمت ميں رہنا بعض برائيوں اور منكرات كو تبديل كرنے يا اس ميں كمى كرنے كا باعث ہے، اور امر بالمعروف اور نہى عن المنكر ہو سكتا ہے، اور دين پر چلنے والوں كے ليے اس اخبار ميں دين اسلام كے دفاع كے ليے كالم لكھنے كا دروازہ كھل سكتا ہے... يا اس طرح كا كوئى اور فائدہ ہو تو ہميں اميد ہے كہ آپ كا اس اخبار كى ملازمت ميں رہنا آپ كے ليے باعث اجروثواب اور بہتر ہے، ان شاء اللہ آپ جو بھى برائى ختم كرينگے اور اس ميں تبديلى لانے كى كوشش كرينگے اس كا اجرملے گا.

ليكن اگر آپ اس سے عاجز ہوں اورايسا نہ كر سكتے ہوں اور اخبار فحاشى اور برائى سے بھرا ہوا ہو تو پھر آپ كے ليے ملازمت ترك كرنے كے علاوہ كوئى اور راہ نہيں، اللہ تعالى آپ كو اس كے بدلے بہتر اور اچھا كام مہيا كريگا.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب