ہفتہ 27 جمادی ثانیہ 1446 - 28 دسمبر 2024
اردو

ميت كے والد اور اولاد ميں تركہ كى تقسيم كا طريقہ

83065

تاریخ اشاعت : 09-06-2007

مشاہدات : 5752

سوال

اگر ميں كام كاج كر كے كچھ مال جمع كروں اور اللہ تعالى مجھے فوت كر دے اور ميرے والد زندہ ہوں تو كيا تركہ ميرے والد كو ملے گا يا كہ ميرى اولاد كو ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب كوئى انسان فوت ہو جائے اور اس كے والد بھى زندہ ہو، اورميت كى اولاد بھى ہو تو والد كو مال متروكہ كا چھٹا حصہ ملےگا، اور اگر ميت كى بيوى ہو تو اسے آٹھواں حصہ اور باقى مال اولاد كو اس طرح تقسيم كيا جائيگا كہ بيٹے كو دو بيٹيوں كے برابر حصہ ملےگا.

اور اگر اولاد صرف بيٹياں ہى ہوں يعنى ايك يا ايك سے زائد بيٹى ہو تو پھر بيوى آٹھواں حصہ حاصل كريگى ـ اگر بيوى ہو تو ـ پھر بيٹى يا ايك سے زائد بيٹياں اللہ كى جانب سے فرض كردہ حصہ حاصل كرينگى جو كہ ايك كے ليے نصف ہے، اور دو يا دو سے زائد بيٹياں ہوں تو انہيں دو تہائى ملےگا، پھر باب كو چھٹا حصہ ديا جائيگا، اور بيوى اور بيٹيوں كو ان كا حصہ دينے كے بعد جو باقى بچے وہ باپ لے جائيگا.

اس كى دليل اللہ سبحانہ وتعالى كا درج ذيل فرمان ہے:

اللہ تعالى تمہيں تمہارى اولاد كے بارہ ميں حكم كرتا ہے كہ ايك لڑكے كا حصہ دو لڑكيوں كے برابر ہے، اور اگر صرف لڑكياں ہى ہوں اور دو سے زيادہ ہوں تو پھر ان كے مال متروكہ كا دو تہائى حصہ ملےگا، اور اگر ايك ہى لڑكى ہو تو اس كے ليے آدھا ہے، اور ميت كے ماں باپ ميں سے ہر ايك كے ليے چھوڑے ہوئے مال كا چھٹا حصہ ہے اگر ميت كى اولاد ہو النساء ( 11 ).

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

ميراث يعنى وراثت ميں باپ كى تين حالتيں ہيں:

پہلى حالت:

اس ميں بطور فرض وارث بنتا ہے، وہ يہ كہ ميت كے بيٹے يا پوتے كے ساتھ، تو اس حالت ميں ميت كے باپ كو صرف چھٹا حصہ ملےگا، اور باقى مانندہ مال بيٹے اور جو اس كے ساتھ ہو اسے ملےگا، ہمارے علم كے مطابق تواس ميں كوئى اختلاف نہيں، يہ اس ليے كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور اس ميت كے والدين ميں سے ہر ايك كے ليے اس ميت كے چھوڑے ہوئے مال كا چھٹا حصہ ہے، اگر ميت كى اولاد ہو النساء ( 11 ).

دوسرى حالت:

اس حالت ميں وہ صرف عصبہ ہونے كى بنا پر وارث بنےگا جو كہ اولاد كے علاوہ دوسروں كے ساتھ ( يعنى ميت كا بيٹا يا بيٹى نہ ہو ) تو اگر ميت كا والد اكيلا ہو تو سارا مال لےگا، اور اگر اس كے ساتھ كوئى اور صاحب فرض ہو مثلا بيوى يا خاوند يا ماں يا دادى تو صاحب فرض كو اس كا فرضى حصہ ملےگا، اور باقى مال والد كو مل جائيگا.

كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور اگر اس كى اولاد نہ ہو اور اس كے والدين اس كے وارث بنيں تو اس كى ماں كا تيسرا حصہ ہے النساء ( 11 ).

تو يہاں اللہ تعالى نے ميراث كى اضافت والدين كى طرف كى ہے، اور پھر ماں كے ليے تيسرا حصہ مقرر كيا ہے تو اس طرح باقى حصہ باپ كا ہوگا.

تيسرى حالت:

اس كے ليے دونوں معاملے ہى جمع ہو جائيں: يعنى فرضى حصہ اور عصبہ ہونے كى بنا پر حاصل ہونے والا حصہ بھى، اس كى صورت يہ ہے كہ باپ اپنے بيٹے كى لڑكيوں كے ساتھ وارث بنے ( يعنى ميت كى بيٹى يا پوتى كے ساتھ ) تو باپ كو چھٹا حصہ ملےگا، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

ان ميں سے ہر ايك كے ليے مال متروكہ كا چھٹا حصہ ہے اگر اس كى اولاد ہو .

اور بالاجماع ميت كى بيٹى كے ساتھ ميت كے باپ كو چھٹا حصہ ملے گا، اور عصبہ ہونے كى بنا پر باقى بھى باپ ہى لےگا، اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" فرضى حصے ان كے اہل كو دو، اور جو باقى بچے اس كا قريب ترين مرد زيادہ مستحق ہے "

متفق عليہ.

اور بيٹے يا پوتے كے بعد ميت كا باپ زيادہ قريب اور اولى ہے، اور اہل علم كا اس سب پراجماع ہے، الحمد للہ ہمارے علم ميں تو اس ميں كسى قسم كا كوئى اختلاف نہيں " انتہى

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 6 / 169 ) اختصار اور كچھ كمى و بيشى كے ساتھ نقل كيا گيا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب