الحمد للہ.
اگر تو يہ قرض جس كے متعلق دريافت كيا جا رہا ہے قرض حسنہ ہے اور قرض واپس كرتے وقت زيادہ رقم نہيں دينا پڑيگى تو اس قرض كے حصول ميں كوئى حرج نہيں، اور اس قرض كى ادائيگى ميں اللہ تعالى آپ كى مدد كريگا.
كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تين قسم كے افراد كى مدد كرنا اللہ پر حق ہے: فى سبيل اللہ جہاد كرنے والا، اور وہ مكاتب جو ادائيگى كرنا چاہتا ہو، اور جو عفت و عصمت كى خاطر نكاح كرنا چاہتا ہو "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1655 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 3120 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے:
" جو شخص لوگوں سے مال لے اور وہ اس كى ادائيگى كا ارادہ ركھتا ہو تو اللہ تعالى اس كى جانب سے ادائيگى كرتا ہے، اور جو شخص اسے تلف اور ضائع كرنا چاہے تو اللہ تعالى اسے تلف اور ضائع كر ديگا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2387 ).
اور اگر يہ قرض سودى ہو جو واپسى كے وقت زيادہ رقم كے ساتھ ادا كرنا ہو تو پھر آپ كے ليے يہ قرض لينا جائز نہيں، نہ تو آپ شادى كے ليے لے سكتے ہيں، اور نہ ہى كسى اورغرض كے ليے؛ كيونكہ سود كے متعلق بہت سخت وعيد آئى ہے، اسے معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 6847 ) اور ( 9054 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
اور پھر آپ يہ بتائيں كہ آپ اپنى ازدواجى زندگى كى ابتدا حرام كے ساتھ كس طرح شروع كر سكتے ہيں ؟
اور اس شخص كو توفيق اور ادائيگى كى ہمت كيسے ہو سكتى ہے جو سود كا لين كرے جسے لعنت كى شديد وعيد سنائى گئى ہے، اور جسے اللہ تعالى اور اس كے رسول كے ساتھ لڑائى كے ليے تيار رہنے كا حكم ديا گيا ہے ؟!
آپ كو صبر كرتے ہوئے اجروثواب كى نيت ركھنى چاہيے، اور اللہ تعالى كى جانب سے تنگى سے نكلنے كى اميد ركھنى چاہيے، اور آپ رزق حلال كے حصول ميں كوشش جارى ركھيں، اور ايسے اسباب مہيا كريں جس سے حلال روزى كا حصول ممكن ہو.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 45042 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
آپ نے اس لڑكى سے تعلقات قائم كر كے غلطى كى ہے، آپ جتنا بھى گمان كريں كہ يہ گناہ سے خالى ہے، اور يہ اس صورت ميں ہے كہ اگر ايسا فرض كر ليں، تو بھى اس لڑكى كو اس اعتبار سے نقصان اور ضرر ہے وہ اتنى مدت سے آپ كے ساتھ بندھى ہوئى اور منسوب ہے، اور آپ كى حالت يہ ہے كہ آپ شادى كے اخراجات پورے نہيں كر سكے، اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ آپ سے درگزر فرمائے، اور آپ كو اپنے فضل سے اتنا كچھ دے جو آپ كے ليے اللہ كى اطاعت اور رضا ميں ممد و معاون ثابت ہو.
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك شخص كا عقد نكاح ہو گيا اور وہ مہر كى رقم جمع نہيں كر سكا تو كيا وہ سودى بنك سے قرض حاصل كر سكتا ہے ؟
كميٹى كا جواب تھا:
" آپ كے ليے يہ قرض لينا جائز نہيں، اور آپ نے جو ذكر كيا ہے كہ مہر كى رقم كے حصول كى ضرورت ہے يہ كوئى ايسى ضرورت نہيں جو بنك سے سودى قرض كے ليے جواز بن سكتى ہو، آپ كو اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرنا چاہيے، كيونكہ جو شخص بھى اللہ كا تقوى اختيار كرتا ہے اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے رزق بھى ايسى جگہ سے عطا فرماتا ہے جہاں سے اس كا وہم و گمان بھى نہيں ہوتا، اور پھر جو كوئى بھى اللہ تعالى پر توكل اور بھروسہ كرے تو اللہ اسے كافى ہے، يقينا اللہ تعالى اپنے امر كو پورا كرنے والا ہے، اور اللہ تعالى نے ہر چيز كے ليے ايك اندازہ مقرر كر ركھا ہے.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كے معاملہ ميں آسانى پيدا فرمائے، اور آپ كى تكليف اور مشكل دور كرے، اور حلال كے ساتھ آپ كو حرام سے غنى و بے پرواہ كر دے " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 387 ).
واللہ اعلم .