الحمد للہ.
اول:
جدا ہوتے وقت يا مجلس كے اختتام پر يہ كلمات كہنے كے متعلق ہمارے علم ميں نہ تو كوئى صحيح حديث ہے اور نہ ہى كوئى ضعيف حديث، اس ليے اس پر عمل كرنا يا اس مناسبت سے اس كو مشروع سمجھنا بدعت ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ مردود ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1718 ).
اور پھر علماء كرام نے بيان كيا ہے كہ عبادت كو كسى وقت يا جگہ يا كيفيت كے ساتھ مخصوص كرنا جس كى تعيين كتاب و سنت ميں نہيں كى گئى تو اسے بدعات اور دين ميں نئى ايجاد ميں شمار كيا جائيگا، اور اسے اضافى بدعت كا نام ديا جائيگا كيونكہ اصلا تو وہ مشروع ہے ليكن طريقہ اور وصف كے اعتبار سے مردود اور بدعت ہو گى.
اور پھر عبادت كے ليے شرط ہے كہ وہ فى ذاتہ مشروع ہو اور اس كى كيفيت اور مقدار اور وقت بھى مشروع ہو، كيونكہ اللہ تعالى كى عبادت اسى طرح ہو سكتى جو اللہ نے اپنى كتاب ميں يا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سنت ميں مشروع كى ہے.
شاطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" بدعت كى تعريف اس طرح ہو گى: دين ميں نيا ايجاد كردہ طريقہ، جو شريعت كا مقابلہ كرتا ہو، اور اس پر چل كر اللہ سبحانہ و تعالى كى عبادت ميں مبالغہ كا قصد كيا جائے...
اس ميں كسى معين كيفيت اور معين ہيئت اور شكل كا التزام كيا جائے مثلا اجتماعى صورت ميں ايك ہى آواز پر ذكر كرنا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے يوم ولادت كو عيد بنانا وغيرہ.
اس ميں يہ بھى شامل ہے كہ: معين عبادات كا معين اوقات ميں التزام كرنا جن كى تعيين شريعت ميں نہيں ہے، مثلا پندرہ شعبان كا روزہ ركھنا اور نصف شعبان كى رات كا قيام كرنا " انتہى
ديكھيں: الاعتصام ( 1 / 37 - 39 ).
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 11938 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
دوم:
مجلس كے اختتام ميں درج ذيل دعا پڑھنى مشروع ہے:
ابو برزہ اسلمى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم جب مجلس سے اٹھنے كا ارادہ كرتے تو يہ دعا پڑھا كرتے تھے:
" سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ "
پاك ہے تيرى ذات اے اللہ! تيرى تعريف كے ساتھ، ميں گواہى ديتا ہوں كہ تيرے سوا كوئى معبود نہيں، ميں تجھ سے معافى چاہتا ہوں اور تجھ سے توبہ كرتا ہوں "
اور فرمايا: مجلس ميں جو كچھ ہو اس كا كفارہ بن جاتا ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4859 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اسى طرح ايك دوسرے سے ملاقات كرنے والے جب ايك دوسرے سے عليحدہ ہونے لگيں تو ايك كے ليے سورۃ العصر پڑھنا مشروع ہے طبرانى ميں ابو مدينہ دارمى رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے اور يہ صحابى ہيں وہ كہتے ہيں:
" صحابہ كرام جب آپس ميں ملتے اور تو جدا ہونے سے پہلے ايك دوسرے كو سورۃ العصر پڑھ كر ضرور سناتا اور پھر وہ دوسرے كو سلام كر كے جدا ہو جاتے "
طبرانى الاوسط حديث نمبر ( 5124 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 2648 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ديكھيں كہ لوگوں نے اپنى ايجاد كردہ بدعات پر عمل كرنے كے ليے كس طرح ثابت شدہ سنت كو ترك كيا ہے، اور يہ بالكل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس فرمان كا مصداق ہے:
" جس قوم نے بھى كوئى بدعت ايجاد كى تو اس ميں سے اس جيسى ايك سنت اٹھا لى گئى "
مسند احمد حديث نمبر ( 16522 ) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس كى سند كو جيد قرار ديا ہے ديكھيں: فتح البارى ( 13/ 253 ).
اللہ تعالى ہميں اور آپ كو سنت نبويہ كى اتباع و پيروى كرنے اور بدعات سے اجتناب كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .