الحمد للہ.
تمام صحابہ کرام کو عادل ماننا اور دیگر افراد امت پر صحابہ کرام کو فضیلت دینا اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے صحابہ کرام کی اپنی کتاب میں بہت تعریف بیان کی ہے، احادیث مبارکہ میں بھی ان کی مدح سرائی کی گئی ہے، پھر کتاب و سنت دونوں کی مختلف انداز اور سیاق و سباق میں صحابہ کرام کی توصیف و تعریف اس چیز کی واضح دلیل ہے کہ اللہ تعالی نے صحابہ کرام کو بہت سے فضائل سے نوازا ہے، انہیں خصوصی خوبیاں بھی عنایت فرمائی ہیں، جس کہ وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اللہ تعالی کے ہاں بلند، اعلی اور بالا مقام و مرتبہ ہے، پھر اللہ تعالی نے اپنے بندوں میں سے پیغام رسالت کے لیے مناسب ترین افراد صحابہ کرام کو چنا، چنانچہ اللہ تعالی نے وراثت نبوت کے لیے ایسے لوگوں کا انتخاب فرمایا جو اس کی کما حقہ قدر کر سکیں، اور وہ خود بھی اس عظیم منصب کے اہل ہوں، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ
ترجمہ: اللہ تعالی کو زیادہ علم ہے کہ وہ اپنی پیغمبری کسے عنایت فرمائے۔ [الانعام: 124]
اس بارے میں ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یعنی اللہ تعالی کو علم ہے کہ اس نے رسول کس کو بنانا ہے اور رسول کے بعد پیغام رسالت کی نشر و اشاعت بطور وراثت کس کو دینی ہے؛ چنانچہ اللہ تعالی کو زیادہ علم ہے کہ کون اس پیغام رسالت کو اٹھانے کا اہل ہے کہ اسے مکمل امانتداری اور خیر خواہی کے ساتھ اللہ تعالی کے بندوں تک پہنچائے گا۔ اللہ تعالی کی تعظیم کرے گا، اور اس کے حقوق ادا کرے گا، اللہ تعالی کے احکامات کی پابندی کرے گا اور اللہ کی نعمتوں کا شکر کرے گا، ان کی تعمیل کرتے ہوئے اللہ کا قرب تلاش کرے گا، اور اللہ تعالی کو یہ بھی پتہ ہے کہ کون اس قابل نہیں ہے۔ اسی طرح اللہ سبحانہ و تعالی کو یہ بھی علم ہے کہ رسولوں کے بعد ان کی خلافت کے لیے کون مناسب ہے جو اللہ تعالی کے دئیے ہوئے پیغام رسالت کو آگے پہنچا سکیں۔" ختم شد
طريق الهجرتين ، ص (171)
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَكَذَلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِيَقُولُوا أَهَؤُلاءِ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنْ بَيْنِنَا أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ
ترجمہ: اور اسی طرح ہم نے ان کی آپس میں آزمائش کی تاکہ وہ کہیں: کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے ہمارے درمیان [نبوت دے کر] احسان فرمایا ہے؟ کیا اللہ شکر کرنے والوں کو زیادہ جاننے والا نہیں ؟[الانعام: 53]
علامہ سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جو لوگ نعمتوں کا اعتراف کرتے ہیں، اور ان کا اقرار کرتے ہیں، پھر مطلوبہ عمل صالح بجا لاتے ہیں تو اللہ تعالی انہی پر اپنا فضل اور احسان نازل فرماتا ہے، لہذا اللہ تعالی ناشکرے اور بے قدرے لوگوں پر فضل نہیں فرماتا؛ کیونکہ اللہ تعالی کی ذات حکمت والی ہے، چنانچہ اللہ تعالی نااہل لوگوں پر اپنا فضل نہیں فرماتا۔" ختم شد
جس طرح متعدد آیات اور احادیث مبارکہ صحابہ کرام کی فضیلت اور بلند منزلت پر دلالت کرتی ہیں، اسی طرح کتاب و سنت میں ان کے اس بلند مقام کی وجہ اور سبب بھی بیان کیا گیا ہے ، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاء عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعاً سُجَّداً يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَاناً سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْراً عَظِيماً
ترجمہ: محمد -صلی اللہ علیہ و سلم - اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر تو سخت لیکن آپس میں رحم دل ہیں۔ تم جب دیکھو گے انہیں رکوع و سجود کرتے ہوئے اور اللہ کے فضل اور اس کی رضا مندی کی تلاش کرتے ہوئے دیکھو گے (کثرت) سجدہ کی وجہ سے ان کی پیشانیوں پر نشان موجود ہیں۔ ان کی یہی صفت تورات میں بیان ہوئی ہے اور یہی انجیل میں ہے جیسے ایک کھیتی ہو جس نے اپنی کونپل نکالی پھر اسے مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوئی اور اپنے تنے پر کھڑی ہوگئی (اس وقت وہ) کسانوں کو خوش کرتی ہے۔ تاکہ کافروں کو ان کی وجہ سے غصہ دلائے۔ اس گروہ کے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نیک عمل کیے اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے۔ [الفتح: 29]
تو صحابہ کرام کو ملنے والے بلند ترین مقام و مرتبے کا ایک موجب اللہ تعالی کی ان کے بارے میں گواہی ہے کہ اللہ تعالی نے ان کے دلوں کو پاکیزہ، اور ان کے ایمان کو سچا قرار دیا، اور یہ گواہی اللہ رب العالمین کی جانب سے ہے، ایسی گواہی کوئی بھی بشر سلسلہ وحی بند ہونے کے بعد حاصل نہیں کر سکتا۔
آپ اللہ تعالی کا یہ فرمان پڑھیں:
لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحاً قَرِيباً
ترجمہ: بلاشبہ یقیناً اللہ ایمان والوں سے راضی ہو گیا، جب وہ اس درخت کے نیچے تجھ سے بیعت کر رہے تھے، تو اس نے جان لیا جو ان کے دلوں میں تھا، پس ان پر سکینت نازل کر دی اور انہیں بدلے میں ایک قریب فتح عطا فرمائی۔ [الفتح: 18]
ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تفسیر (4/243) میں کہتے ہیں:
"یعنی اللہ تعالی نے ان کے دلوں میں موجود صداقت، وفا داری، فرمانبرداری اور اطاعت گزاری جان لی تھی۔" ختم شد
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں بڑی ہی بہترین گفتگو فرمائی اور کہا: "اگر تم میں سے کوئی کسی کو اپنا پیشوا بنانا چاہتا ہو تو انہیں بنائے جو فوت ہو چکے ہیں؛ کیونکہ زندہ شخص تو کبھی بھی فتنے میں مبتلا ہو سکتا ہے؛ اور فوت ہو جانے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام ہیں، وہ اس امت میں سب سے افضل ہیں، ان کے دل سب سے صاف، ان کا علم سب سے گہرا، اور وہ سب سے کم تکلفات کرنے والے تھے۔ وہ ایسی قوم ہیں جنہیں اللہ تعالی نے اپنے نبی کی صحبت اور اقامت دین کے لیے منتخب فرمایا؛ لہذا ان کا احترام کرو، ان کی فضیلت کا اعتراف کرو، اور ان کی اقتدا کرو، جس قدر ممکن ہو سکے ان کے اخلاق اور دینداری کو اپناؤ؛ کیونکہ تمام صحابہ کرام راہ ہدایت پر تھے۔" ابن عبد البر رحمہ اللہ نے اسے "جامع العلوم و الحکم" (1810) میں روایت کیا ہے۔
اللہ تعالی نے مہاجرین اور انصار کے ساتھ جنتوں اور دائمی نعمتوں کا وعدہ فرمایا ہے، اللہ تعالی نے انہیں قیامت تک پڑھی جانے والی آیات کریمہ میں اپنی رضا عنایت فرمائی ہے، تو کیا یہ ممکن ہے کہ پھر بھی یہ صحابہ کرام اتنی بڑی فضیلت کے حقدار نہ ہوں؟!
فرمانِ باری تعالی ہے:
وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَداً ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
ترجمہ: اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور متقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں ؛ اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اللہ سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے۔ [التوبہ: 100]
پھر ان کی افضلیت کی گواہی خود سید البشر اور امام الرسل صلی اللہ علیہ و سلم نے دی؛ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی زندگی میں صحابہ کرام کے ساتھ رہے، ان کی جاں نثاری اور جواں مردی کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے صحابہ کرام کی مدح سرائی اور محبت میں ایسے الفاظ فرمائے جو ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میرے صحابہ کو برا بھلا مت کہو؛ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم میں سے اگر کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر دے تو وہ صحابہ کرام کے خرچ کیے ہوئے ایک مد بلکہ آدھے مد کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔) اس حدیث کو بخاری: (3637) اور مسلم: (2540) نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (سب سے بہترین لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں، پھر جو ان کے بعد آئیں گے اور پھر جو ان کے بعد آئیں گے۔) اس حدیث کو بخاری: (2652) اور مسلم: (2533) نے روایت کیا ہے۔
علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ "الكفاية" (49) میں کہتے ہیں:
"اگر صحابہ کرام کی فضیلت کے بارے میں اللہ تعالی کی طرف سے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب سے کچھ بھی وارد نہ ہوتا تو صحابہ کرام نے اپنی عملی زندگی میں جو کچھ کر دکھایا وہی ان کی افضلیت کے لیے کافی تھا کہ انہوں نے ہجرت کی ، جہاد میں حصہ لیا، اللہ کے دین کی نصرت کی، مال و جان دونوں نچھاور کر دئیے، مد مقابل اگر باپ اور اولاد بھی آئی تو گریز نہیں کیا بلکہ اڑا کر رکھ دیا، دین کی بنیاد پر خیر خواہی کی، ایمان و یقین کی پختگی حاصل کی۔ ان تمام امور کی بدولت صحابہ کرام قطعی طور پر عادل ہیں، ان کی ہستیاں پاکباز ہیں، ان کے بعد کوئی جتنا بڑے سے بڑا پاکباز اور متقی آ جائے وہ ہمیشہ حضرات صحابہ کرام سے پیچھے ہی رہے گا، ان کے کسی صورت آگے نہیں بڑھ سکتا۔ تمام معتبر علمائے کرام کا صحابہ کرام کے بارے میں یہی متفقہ موقف ہے۔" ختم شد
یہی وجہ ہے کہ اگر ہم صحابہ کرام کے نصرتِ دین کے لیے واقعات بیان کرنے لگیں ، اور صحابہ کرام کی حسن کارکردگی کا تذکرہ کریں جس کی وجہ سے انہیں اتنا بلند مقام ملا ہے تو ہمیں بڑی بڑی ضخیم جلدیں لکھنی پڑیں گی؛ کیونکہ صحابہ کرام کی ساری زندگی ہی اللہ تعالی کی راہ میں وقف تھی، تو ایسی کون سی کتاب ہے جو دنیا کو خیر و بھلائی سے معمور کر دینے والے سینکڑوں صحابہ کا تذکرہ اپنے اندر سمو سکے!؟
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے دلوں کو دیکھا تو جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دل کو سب سے بہترین دل پایا، تو اللہ تعالی نے انہیں اپنے لیے منتخب فرما لیا، اور آپ کو پیغام رسالت دے کر مبعوث فرمایا۔ پھر اس کے بعد بقیہ لوگوں کے دلوں کو پرکھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام کے دلوں کو سب سے بہترین پایا اس لیے اللہ تعالی نے انہیں اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے وزیر اور مشیر بنا دیا، انہوں نے دین محمدی کی نصرت کے لیے قتال میں حصہ لیا۔ لہذا جس چیز کو مسلمان [یعنی: صحابہ کرام] اچھا سمجھیں تو وہی اللہ تعالی کے ہاں بھی اچھا ہے، اور جس چیز کو صحابہ کرام برا سمجھیں تو وہ اللہ تعالی کے ہاں بھی بری ہے۔" ختم شد
مسند امام احمد: (1/379) محققین مسند احمد کے مطابق اس روایت کی سند حسن ہے۔
پہلے ہم سوال نمبر: (13713 ) اور (45563) کے جواب میں اس بات کے دلائل ذکر کر آئے ہیں۔
دوم:
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین معصوم عن الخطا نہیں ہیں، اہل سنت والجماعت کا یہی موقف ہے، لہذا صحابہ کرام سے وہ سب کچھ ہو سکتا ہے جو کسی بھی بشر سے ممکن ہے۔
تاہم کچھ صحابہ کرام سے جو غلطیاں اور نافرمانیاں ہوئی ہیں وہ صحابہ کرام کے مقام و مرتبے کے مقابلے میں بہت معمولی اور ان شاء اللہ قابل درگزر ہیں؛ کیونکہ نیکیاں غلطیوں کو مٹا دیتی ہیں، اور ویسے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک لمحے کے لیے دست و بازو بننے کے مقابلے میں یہ گناہ کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اہل سنت والجماعت صحابہ کرام کی ہمیشہ توصیف بیان کرتے ہیں، ان کے لیے رحمت کی دعا اور مغفرت طلب کرتے ہیں، تاہم اہل سنت یہ نہیں کہتے کہ صحابہ کرام سے گناہ سر زد نہیں ہو سکتا، یا ان سے اجتہادی غلطی نہیں ہو سکتی، یہ دونوں خوبیاں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات کے ساتھ خاص ہیں؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ جو کوئی بھی مخلوق ہے اس سے گناہ بھی ہو سکتا ہے اور اجتہادی غلطی بھی ہو سکتی ہے، لیکن اس سب کے باوجود انہی کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ:
أُولَئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَنَتَجَاوَزُ عَنْ سَيِّئَاتِهِمْ
ترجمہ: یہی وہ لوگ ہیں جن کے نیک اعمال ہم قبول فرما لیتے ہیں اور ان کے برے اعمال سے درگزر کر لیتے ہیں۔[الاحقاف: 16] پھر اعمال کی فضیلت شکل و صورت پر محصور نہیں ہوتی بلکہ ان کے نتائج اور انجام پر منحصر ہوتی ہے۔" ختم شد
مجموع الفتاوی: ( 4/434 )
صحابہ کرام کے بارے میں مذکورہ اصول کتاب و سنت میں کئی مقامات پر ثابت شدہ ہے:
چنانچہ اللہ تعالی نے غزوہ احد کے موقع جو صحابہ کرام مدینہ کی جانب واپس چلے گئے تھے ، ان کی اس غلطی کو اللہ تعالی نے معاف فرما دیا، چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْاْ مِنكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُواْ وَلَقَدْ عَفَا اللّهُ عَنْهُمْ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ
ترجمہ: تم میں سے جن لوگوں نے اس دن پیٹھ دکھائی جس دن دونوں جماعتوں کی مڈ بھیڑ ہوئی تھی یہ لوگ اپنے بعض کرتوتوں کے باعث شیطان کے پھسلانے میں آ گئے لیکن یقین جانو کہ اللہ تعالی نے انہیں معاف کر دیا اللہ تعالی بخشنے والا اور تحمل والا ہے۔ [آل عمران: 155]
اسی طرح جب فتح مکہ کے سال کسی صحابی سے غلطی ہوئی اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی لشکر کشی کے راز کو فاش کر دیا، تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں قتل کرنے کا ارادہ فرما لیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً وہ بدری صحابی ہے، اور کیا آپ کو نہیں معلوم کہ اللہ تعالی نے اہل بدر سے فرما دیا ہے کہ: اب تم جو مرضی کرو، میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے۔)اس حدیث کو بخاری اور مسلم: (2494) نے روایت کیا ہے۔
اس کے علاوہ دیگر اور بہت سے مواقع ہیں جن میں کچھ صحابہ کرام سے غلطی اور کوتاہی ہوئی تو اللہ تعالی نے ان کی اس کوتاہی کو معاف فرما دیا، اور انہیں بخش دیا، چنانچہ یہ سب امور اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ صحابہ کرام حقیقی طور پر اس مقام اور مرتبے کے حق دار ہیں، لہذا اگر صحابہ کرام سے عہد نبوت میں یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد کچھ چیزیں سر زد ہوئی ہیں ان کی وجہ سے صحابہ کرام کے مقام اور مرتبے میں کوئی رخنہ پیدا نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سابقہ آیات کریمہ صحابہ کرام کی فضیلت اور اہل جنت ہونے کی خبریں ہیں، اور کوئی خبر کبھی منسوخ نہیں ہوتی۔
واللہ اعلم