الحمد للہ.
اول:
مذكورہ طريقہ سے آپ كا غسل الحمد للہ صحيح اور كافى ہے، ليكن اس ميں كچھ ايسى مسنون اشياء رہ گئى ہيں جو غسل پر اثر انداز نہيں ہوتيں.
ذيل ميں ہم غسل كا مكمل اور كفائت كرنے والے دونوں طريقے بيان كرتے ہيں:
كفائت كرنے والا طريقہ:
انسان كے ليے صرف واجبات پر عمل كرنا ہى كافى ہے اس ميں مستحب اور مسنون اشياء كى ضرورت نہيں، چنانچہ وہ طہارت كى نيت سے كسى بھى طريقہ پر اپنے سارے جسم پر پانى بہا لے، چاہے شاور كے نيچے كھڑا ہو كر يا پھر سمند اور دريا ميں يا پھر سوئمنگ پول ميں داخل ہو كر كلى اور ناك ميں پانى ڈال كر سارے جسم پر پانى بہا لے تو اس طرح اس كا غسل ہو جائيگا.
غسل كا كامل طريقہ:
وہ اس طرح غسل كرے جس طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے غسل كيا اس ميں سارے مسنون عمل كرے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے غسل كے طريقہ كے متعلق دريافت كيا گيا تو شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
غسل كے دو طريقے ہيں:
پہلا طريقہ:
يہ واجب طريقہ ہے:
وہ يہ ہے كہ كلى اور ناك ميں پانى چڑھا كر اپنے پورے جسم پر پانى بہايا جائے، سارے بدن پر كسى بھى طريقہ سے پانى بہايا جائے تو اس حدث اكبر سے غسل ہو جائيگا اور طہارت مكمل ہو جائيگى، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور اگر تم جنبى ہو تو غسل كرو المآئدۃ ( 6 ).
دوسرا طريقہ:
كامل طريقہ يہ ہے كہ:
انسان اس طرح غسل كرے جس طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے غسل كيا تھا، چنانچہ جب غسل جنابت كرنا چاہے تو وہ اپنے دونوں ہاتھ دھو كر اپنى شرمگاہ دھوئے اور جہاں نجاست لگى ہے اس جگہ كو دھوئے، پھر مكمل وضوء كرے، پھر پانى كے ساتھ تين بار اپنا سر دھوئے، اور پھر اپنا سارا بدن دھوئے، يہ غسل كا مكمل اور كامل طريقہ ہے. انتہى.
ديكھيں: فتاوى اركان الاسلام صفحہ نمبر ( 248 ).
دوم:
غسل جنابت اور حيض كے غسل ميں كوئى فرق نہيں، صرف يہ ہے كہ حيض كا غسل كرتے وقت سر كے بال غسل جنابت سے بھى اچھى طرح مل كر دھونا مستحب ہے، اور اس ميں عورت كے ليے خون والى جگہ ميں خوشبو استعمال كرنا مستحب ہے، تا كہ كريہہ اور گندى قسم كى بو جاتى رہے.
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ اسماء رضى اللہ تعالى عنہا نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے حيض كے غسل كے متعلق دريافت كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم اپنا پانى اور بيرى لے كر اچھى طرح وضوء كرو، اور پھر سر پر پانى بہاؤ اور اسے اچھى طرح ملو حتى كہ پانى بالوں كى جڑوں تك پہنچ جائے، پھر اپنے اوپر پانى بہاؤ پھر خوشبو لے كر اس سے طہارت كرو، تو اسماء رضى اللہ تعالى عنہا كہنے لگيں: اس سے كيسے طہارت كرے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: سبحان اللہ اس سے طہارت حاصل كرو.
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كہتى ہيں گويا كہ وہ اسے مخفى ركھ رہى تھيں: خون والى جگہ پر ركھو "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 332 ).
اور انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے غسل جنابت كے متعلق دريافت كيا تو آپ نے فرمايا:
" پانى ليكر اچھى طرح وضوء كرو، پھر اپنے سر پر پانى بہاؤ اور اچھى طرح ملو حتى كہ بالوں كى جڑوں تك پانى پہنچ جائے، پھر اپنے اوپر پانى بہاؤ.
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں: انصار كى عورتيں بہت اچھى تھيں، انہيں دين سمجھنے ميں شرم و حيا آڑے نہيں آتى تھى.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے غسل جنابت اور غسل حيض ميں بالوں كو ملنے اور خوشبو استعمال كرنے كا فرق كيا.
قولہ: " شؤون راسہا " اس سے بالوں كى جڑيں مراد ہيں.
" فرصۃ ممسكۃ " يعنى كستورى كى خوشبو لگى ہوئى روئى يا كپڑا.
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا قول: " گويا كہ وہ اسے مخفى ركھ رہى تھيں: يعنى وہ يہ جملہ آہستہ خفى آواز ميں كہہ رہى تھى كہ مخاطب اسے سن لے اور دوسرے حاضرين اسے نہ سن سكيں.
سوم:
جمہور فقھاء كے ہاں غسل اور وضوء كرتے وقت بسم اللہ پڑھنا مستحب ہے، اور حنابلہ كے ہاں واجب ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" مذہب ميں وضوء كى طرح بسم اللہ واجب ہے، اور اس ميں كوئى نص نہيں، ليكن ان كا كہنا ہے كہ: وضوء ميں واجب ہے، تو پھر غسل ميں بالاولى واجب ہو گى كيونكہ يہ بڑى طہارت ہے.
اور صحيح يہى ہے كہ نہ تو بسم اللہ وضوء ميں واجب ہے اور نہ ہى غسل ميں " انتہى.
ماخوذ از: الشرح الممتع.
چہارم:
غسل ميں كلى كرنا اور ناك ميں پانى چڑھانا ضرورى ہے، جيسا كہ احناف اور حنابلہ كا مسلك ہے.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى اس ميں اختلاف بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" كلى كرنے اور ناك ميں پانى چڑھانے كے متعلق علماء كرام كے چار مسلك ہيں:
پہلا:
شافعيہ كے ہاں يہ دونوں وضوء اور غسل ميں سنت ہيں.
دوسرا:
امام احمد سے مشہور يہى ہے كہ: غسل اور وضوء ميں يہ دونوں واجب ہيں، اور ان كے صحيح ہونے كى شرائط ميں داخل ہيں.
تيسرا:
احناف كے ہاں غسل ميں واجب ہيں، وضوء ميں نہيں.
چوتھا:
امام احمد سے ايك روايت ہے كہ وضوء اور غسل كرتے وقت ناك ميں پانى چڑھانا اجب ہے، كلى واجب نہيں، ابن منذر كا يہى كہنا ہے, اور ميں بھى يہى كہتا ہوں " انتہى.
ماخوذ از: المجموع ( 1 / 400 ) مختصرا.
اور دوسرا قول راجح ہے، يعنى غسل ميں كلى كرنا اور ناك ميں پانى چڑھانا واجب ہے، اور اس كے صحيح ہونے كى شرط ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" بعض اہل علم كا كہنا ہے كہ: وضوء كى طرح ان دونوں كے بغير غسل بھى صحيح نہيں.
اور ايك قول يہ بھى ہے كہ: ان كے بغير بھى صحيح ہے.
اور صحيح پہلا قول ہى ہے كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
چنانچہ تم غسل كرو المآئدۃ ( 6 ).
اور يہ سارے بدن كو شامل ہے، اور اس ميں ناك اور منہ بھى شامل ہيں جس كى تطہير اور غسل واجب ہے.
اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے وضوء ميں ان دونوں كا حكم ديا ہے كيونكہ يہ درج ذيل فرمان كے تحت آتے ہيں:
تو تم اپنے چہرے دھؤو المآئدۃ ( 6 ).
چنانچہ جب يہ چہرہ دھونے ميں شامل ہيں، جس كا وضوء ميں دھونا واجب ہے، تو غسل ميں بھى يہ داخل ہيں، كيونكہ غسل ميں طہارت زيادہ مؤكد ہے " انتہى.
ماخوذ از: الشرح الممتع.
پنجم:
اگر تو ماضى ميں آپ علم نہ ہونے كى بنا پر، يا پھر اسے واجب نہ كہنے والے كے قول پر اعتماد كرتے ہوئے غسل كرتے وقت كلى نہيں كرتى تھيں، اور نہ ہى ناك ميں پانى چڑھاتى تھيں، تو آپ كا غسل صحيح ہے، اور اس طرح اس غسل كے بعد ادا كردہ نمازيں بھى صحيح ہيں، اور آپ كو ان كى دوبارہ ادائيگى كى كوئى ضرورت نہيں، كيونكہ كلى اور ناك ميں پانى چڑھانے كے حكم ميں علماء كا اختلاف قوى ہے ـ جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہےـ .
اللہ تعالى سب كو اپنے پسنديدہ اور رضا والے كام كرنے كى توفيق عطا فرمائے.
واللہ اعلم .