الحمد للہ.
اگرتوسوال سے مراد عھد اموی میں تفسیر ہے جو کہ تابعین اورتبع تابعین اورصغار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا دور ہے ، تو بعدوالے ادوارکی نبست اس دور میں تدوین بہت ہی کم ہوئ ، بلکہ اس دورمیں صرف روایت پر ہی انحصارکیا جاتا تھا ، اورتفسیر اثری سے معروف تھی ۔
پھراس کے بعد علماء نے تفسیر قرآن میں توسع اختیارکیا اور کئ ایک طریقوں پرچلے ان میں کچھ طریقے توقابل تعریف وستائش اور کچھ قابل قبول اورکچھ مردود تھے ، پھر اس کے بعد آخری دور میں یہ توسع راۓ اور استنباط میں اورزیادہ ہوگیا ۔
اورتفسیر میں وہ نظریات اورتغیرات شامل ہوگۓ جو تفسیرمیں سے نہیں تھے حتی کہ بعض تفاسیر کے بارہ میں یہ کہا گیا کہ اس میں تفسیر کے علاوہ سب کچھ ہے لیکن تفسیر نہیں ہے ، اس کی مثال درمیانے دورکی تفسیریں ہیں : تفسیررازی ، اورنۓ دور میں تفسیر الجواھر ہے ۔ .