الحمد للہ.
اول:
موسيقى سننا اور استعمال كرنا جائز نہيں، اس ليے نہ تو ورزش كے ہال ميں اور نہ ہى كہيں اور موسيقى سنى جا سكتى ہے؛ كيونكہ موسيقى اور آلات لہو و لعب كى حرمت كے دلائل بہت سارے ہيں، آپ اس كى تفصيل سوال نمبر ( 5000 ) كے جواب ميں ديكھ سكتے ہيں.
دوم:
ورزش كرنے والى جگہ اور ہال ميں موسيقى كى موجودگى ايسا برا عمل ہے جس سے روكنا ضرورى اور واجب ہے، صرف اپنے كانوں ميں ہيڈ فون لگانا ہى كافى نہيں، تا كہ موسيقى كى آواز كانوں ميں نہ پڑے، يا پھر كسى اور مباح چيز سننے ميں مشغول ہونا ہى كافى نہيں، بلكہ جب زبان سے اس موسيقى كو روكا نہيں جا سكتا تو پھر اسے دل سے روكا جائے، اور يہ اس وقت تك نہيں ہو سكتا جب تك اس برائى سے عليحدہ اور دور نہ ہوا جائے، اور جہاں برائى كى جا رہى ہے وہاں سے نكل نہ جائے، اگر اس كے پاس وہاں سے نكلنے كى استطاعت اور طاقت ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جو كوئى بھى تم ميں سے برائى ديكھے تو اسے وہ اپنے ہاتھ سے روكے اور اگر وہ اسكى استطاعت نہيں ركھتا تو اسے اپنى زبان سے روكے، اور اگر اس كى بھى استطاعت نہيں ركھتا تو پھر اسے اپنے دل سے روكے، اور يہ كمزور ترين ايمان ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 49 ).
اور برائى والى جگہ كو چھوڑنے كى دليل درج ذيل فرمان بارى تعالى ہے:
اور اللہ تعالى تمہارے پاس اپنى كتاب ميں يہ حكم نازل كر چكا ہے كہ تم جب كسى مجلس والوں كو اللہ كى آيات كے ساتھ كفر كرتے ہوئے اور مذاق كرتے ہوئے سنو تو اس مجمع ميں ان كے ساتھ مت بيٹھو! جب تك كہ وہ اس كے علاوہ كوئى اور باتيں نہ كرنے لگيں، ( وگرنہ ) تم بھى اس وقت انہى جيسے ہو، يقينا اللہ تعالى تمام كافروں اور سب منافقوں كو جہنم ميں جمع كرنے والا ہے النساء ( 140 ).
قرطبى رحمہ اللہ اس كى تفسير ميں كہتے ہيں:
قولہ تعالى:
تو اس مجمع ميں ان كے ساتھ مت بيٹھو! جب تك كہ وہ اس كے علاوہ كوئى اور باتيں نہ كرنے لگيں .
يعنى كفر كے علاوہ.
( وگرنہ ) تم بھى اس وقت انہى جيسے ہو .
تو يہ اس بات پر دلالت كرتى ہے كہ گناہ اور معاصى كے مرتكب افراد سے جب برائى ظاہر ہو تو ان سے اجتناب كرنا واجب اور ضرورى ہے؛ كيونكہ جو ان سے اجتناب نہيں كريگا تو وہ ان كى اس برے فعل پر رضامند ہے.
( وگرنہ ) تم بھى اس وقت انہى جيسے ہو .
تو جو شخص بھى ان كے ساتھ اس معصيت والى مجلس ميں بيٹھا اور اس نے انہيں اس برائى سے منع نہ كيا تو وہ بھى ان كے ساتھ گناہ ميں برابر كا شريك ہے.
اور اس كو چاہيے كہ اگر وہ لوگ كوئى معصيت والى بات كريں تو وہ انہيں اس سے منع كرے، اور اگر كوئى معصيت والا كام كرتے ہيں تو بھى انہيں روكے، اور اگر وہ انہيں روكنے كى استطاعت نہيں ركھتا تو اسے وہاں سے اٹھ جانا چاہيے تا كہ وہ اس آيت ميں شامل نہ ہو جائے.
عمر بن عبد العزيز رحمہ اللہ سے مروى ہے كہ انہوں نے كچھ لوگوں كو شراب نوشى كرتے ہوئے پكڑا تو وہاں موجود ايك شخص كے متعلق انہيں كہا گيا كہ وہ تو روزہ سے تھا، تو عمر بن عبد العزيز رحمہ اللہ نے اسے ادب سكھايا اور پھر يہ آيت تلاوت كى:
( وگرنہ ) تم بھى اس وقت انہى جيسے ہو .
يعنى معصيت و گناہ پر راضى ہونا بھى معصيت و نافرمانى ہے.
اور جصاص رحمہ اللہ نے " احكام القرآن " ميں كہا ہے:
اس آيت ميں برائى كو روكنے كے وجوب كى دليل ملتى ہے كہ برائى كرنے والے كو برائى سے روكا جائے، اور اسے روكنے اور اس سے انكار يہ ہے كہ اگر وہ اسے ختم نہيں كر سكتا تو پھر اس سے كراہت كا اظہار كرے اور اس برائى كے فاعل كى مجلس سے اٹھ كر چلا جائے، حتى كہ وہ اس برائى سے رك جائے اور اس كى حالت بدل كر برائى كے علاوہ كسى اور حالت پر آ جائے " انتہى.
ديكھيں: احكام القرآن ( 2 / 407 ).
اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" دل سے برائى كا انكار كرنا اور روكنا ہر ايك مسلمان شخص پر فرض ہے، اور وہ يہ ہے كہ انسان اس برائى كو دل سے برا جانے اور اس سے بغض ركھے، اور معصيت و گناہ كا ارتكاب كرنے والے افراد كو ہاتھ اور زبان كے ساتھ برائى سے روكنے سے عاجز ہونے كى صورت ميں ان سے عليحدگى اختيار كر لے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور جب آپ ان لوگوں كو ديكھيں جو ہمارى آيات ميں عيب جوئى كر رہے ہيں تو ان لوگوں سے كنارہ كش ہو جائيں، يہاں تك كہ وہ كسى اور بات ميں لگ جائيں، اور اگر آپ كو شيطان بھلا دے تو يا آنے كے بعد پھر ايسے ظالم لوگوں كے ساتھ مت بيٹھيں الانعام ( 68 ) انتہى
ماخوذ از: الدر السنيۃ فى الاجوبۃ النجديۃ ( 16 / 142 ).
حاصل يہ ہوا كہ آپ كو اس برائى سے انہيں منع كرنا چاہيے، اور آپ اس ہال كے ذمہ داران كو نصيحت كريں، اگر تو وہ آپ كى نصيحت تسليم كر ليں تو الحمد للہ، اور اگر وہ آپ كى نصيحت نہيں مانتے تو پھر آپ اس كے علاوہ كوئى اور ہال تلاش كر ليں، اور آپ ان كى اس معصيت و نافرمانى ميں شريك مت ہوں.
واللہ اعلم .