الحمد للہ.
اگر كوئى كام نہ ہو اور محكمہ نے معلمات كو جانے كى اجازت بھى دے ركھى ہو تو وقت سے قبل جانے ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ محكمہ كو كام كى مصلحت كا زيادہ علم اور اس كى زيادہ نظر ہوتى ہے، اور ملازمين پر كاموں كى تقسيم كا علم ہوتا ہے.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك شخص ملازم ہے اور اس كے پاس جو كام ہوتا ہے وہ ختم كرنے كے بعد ڈيوٹى ختم ہونے سے قبل اس كے ليےگھر جانے كا حكم كيا ہے، خاص كر رمضان المبارك ميں، كيا ايسا كرنا جائز ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" جائز نہيں، اس كے ليے ڈيوٹى ختم ہونے تك دفتر ميں رہنا واجب اور ضرورى ہے، مگر وہ اس محكمہ كى اجازت سے جا سكتا ہے جہاں كام كرتا ہے؛ كيونكہ ہو سكتا ہے كوئى نيا كام آ جائے، اور اس كى ضرورت پڑ جائے، اس ليے ملازم پر واجب ہے كہ وہ ڈيوٹى كا وقت ختم ہونے تك دفتر ميں موجود رہے، ليكن حكومت يا پھر اس ادارہ كى اجازت سے جا سكتا ہے جو اس كا ذمہ دار ہے " انتہى
ماخوذ از: نور على الدرب.
واللہ اعلم .