الحمد للہ.
جس شخص كو صدقات كى تقسيم كا وكيل بنايا گيا ہے اسے تقسيم ميں وہى طريقہ اختيار كرنا چاہيے جو صدقہ ارسال كرنے والے نے متعين كيا ہے؛ كيونكہ وكيل كے پاس تو وہ بطور امانت ہے، اور وہ اپنے موكل كا نائب ہے، اور وہ صرف اس چيز ميں ہى تصرف كر سكتا ہے جس ميں اسے اجازت دى گئى ہے.
اور اگر يہ شخص كسى اور طريقہ سے تقسيم كرنا زيادہ فائدہ مند تصور كرتا ہے تو اسے چاہيے كہ وہ صدقہ ارسال كرنے والے كے سامنے يہ طريقہ بيان كرے، اور اگر پھر بھى وہ اپنے موقف پر قائم رہے اور اسى طريقہ كے مطابق تقسيم كرنے پر اصرار كرے تو پھر اسے مالك كے متعين كردہ طريقہ پر عمل كرنے كا التزام كرنا چاہيے.
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
رمضان المبارك ميں اہل خير ميں سے ايك شخص نے مجھے كچھ رقم دى اور كہا كہ يہ مال اپنے طريقہ سے فقراء ميں تقسيم كردو، ميں نے ان ميں سے كچھ فقراء پر تقسيم كر ديا، ليكن كچھ كو مال دينے ميں تصرف كيا كہ بازار سے كھانے پينے كى اشياء خريد كر ان فقراء ميں تقسيم كر ديا، كيونكہ وہ بازار سے خريدارى كرنے كى استطاعت اور قدرت نہيں ركھتے تھے، اور خاندان ميں كچھ ايسے افراد بھى تھے جو ضرورتمند افراد كى رضامندى كے بغير ہى مال لے كر كھا جاتے، تو كيا ميرے ليے اس طرح كا تصرف كرنا جائز ہے يا نہيں ؟
كميٹى كا جواب تھا:
" آپ كے ليے اسى طريقہ كا التزام كرنا ضرورى ہے جس كى تعيين آپ كے موكل نے كى تھى، وہ يہ كہ آپ فقراء ميں نقد رقم تقسيم كريں، اور ان كے ليے كوئى چيز بھى خريد كر نہ ديں؛ كيونكہ آپ كو اس كا وكيل نہيں بنايا گيا، اور آپ نے جو تصرف اپنى جانب سے كيا ہے اس خرچ كى اتنى رقم ان فقراء ميں تقسيم كريں، تا كہ موكل كا حكم كى تنفيذ ہو، اور آپ اس سے برى الذمہ ہو سكيں، اور آپ جو خرچ كرينگے ان شاء اللہ اس كا آپ كو اجروثواب حاصل ہوگا " انتہى
ماخوذ از: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 14 / 272 ).
اور يہ اس پر دلالت كرتا ہے كہ تقسيم كرنے ميں وہى طريقہ اختيار كيا جائے جو موكل نے متعين كيا ہے.
واللہ اعلم .