اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

کیا صبح اور شام کے اذکار میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا شرعی عمل ہے؟

87664

تاریخ اشاعت : 17-10-2015

مشاہدات : 8263

سوال

میں صبح اور شام کے اذکار فجر اور مغرب کی نماز کے فوراً بعد کہتا ہوں، تو کیا میرے لیے یہ اذکار کرتے ہوئے ہاتھ اٹھا کر اذکار کی دعائیں کرنا جائز ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

صبح و شام کے اذکار کرتے ہوئے  ہاتھ اٹھانا شرعی عمل نہیں ہے، بلکہ فرض نمازوں کے بعد  ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا  بھی درست نہیں ہے، کیونکہ  ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس میں  ہاتھ اٹھانے کو مستحب کہا گیا ہو۔

اصولی طور پر ہر دعا کیساتھ  ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا مستحب ہے،  ماسوائے  ان مقامات کے ،  جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا تو مانگی ہے، لیکن ہاتھ نہیں اٹھائے، مثلاً: خطبہ جمعہ میں بارش کی دعا  کے علاوہ کوئی اور دعا کرتے ہوئے آپ نے ہاتھ نہیں اٹھائے، اسی طرح طواف و سعی میں دعا کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ نہیں اٹھائے، فرض نمازوں کے بعد دعاؤں  میں ہاتھ نہیں  اٹھائے،  چاہے  اس سے مراد تشہد کے  آخر میں کی جانے والی دعا ہو یا سلام کے بعد کی جانے والی دعائیں ہو، [سب میں آپ نے ہاتھ نہیں اٹھائے]، لہذا ان مقامات پر ہاتھ اٹھانا شرعی عمل نہیں ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان مقامات پر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا  ثابت نہیں ہے۔

لیکن اگر کوئی انسان عام دعا  مانگتے ہوئے ہاتھ اٹھا بھی لے  تو ان شاء اللہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (11543) کا مطالعہ کریں۔

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
"فرض نمازوں کے بعد دعا مانگنا سنت ہے؟ اور کیا یہ دعا  ہاتھ اٹھا کر کی جائے گی؟ اور کیا امام کے ساتھ ملکر  اجتماعی دعا کرنا افضل ہے یا نہیں؟"

تو انہوں نے جواب دیا:
"ہاتھ اٹھا کر فرض نمازوں کے بعد دعا کرنا مسنون عمل نہیں ہے، چاہے  یہ عمل  امام  اکیلا کرے یا مقتدی اکیلا کرے، یا سب اجتماعی طور پر کریں، بلکہ یہ عمل بدعت ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام سے ایسا عمل ثابت نہیں ہے، تاہم ہاتھ اٹھائے بغیر دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ  اس بارے میں  کچھ احادیث  موجود ہیں" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (7/103)

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کسی بھی جگہ پر دعا کرتے ہوئے  ہاتھ اٹھانا قبولیت ِ دعا کے اسباب میں سے ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (بیشک تمہارا رب باحیا اور پردہ پوشی فرمانے والا ہے اللہ تعالی کو اپنے بندے سے اس وقت حیا آتی ہے جو وہ اس کی طرف ہاتھ اٹھائے،  اور اللہ اس کے ہاتھوں کو خالی لوٹا دے)

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (بیشک اللہ تعالی  پاکیزہ ہے، اور پاکیزہ ہی قبول فرماتا ہے، اور اللہ تعالی نے مؤمنوں کو انہی باتوں کا حکم دیا ہے جن کا رسولوں کو حکم دیا، چنانچہ مؤمنین کیلئے فرمان باری تعالی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عنایت کی ہیں، اور اللہ کا شکر ادا کرو [البقرة : 172] اور رسولوں کو حکم دیا: يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا اے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ، اور نیک عمل کرو [المؤمنون : 51]  پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے  ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو لمبے سفر میں پراگندہ حالت کیساتھ  آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہتا ہے : "یا رب! یا رب!" حالانکہ اس کا کھانا حرام کا، پینا حرام کا، لباس حرام کا ،  اس کی نشو و نما حرام پر ہوئی، تو اس کی دعا کیسے قبول ہو؟ ) مسلم

چنانچہ ان احادیث میں  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  ہاتھ اٹھانے  کو  قبولیتِ دعا کا سبب قرار دیا ہے، جبکہ حرام کھانے، اور حرام پر نشو و نما   کو دعا کے مسترد ہونے کا سبب   قرار دیا ہے۔

لہذا اس سے معلوم  ہوا کہ رفع الیدین  دعا کی قبولیت  کے اسباب میں سے ہے، چاہے  دعا ہوائی جہاز ،ریل گاڑی ،کار،  یا کسی بھی سواری میں کی جائے، چنانچہ جس وقت بھی دعا کرے تو ہاتھ اٹھانے سے  قبولیت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، البتہ ایسے  مواقع پر ہم ہاتھ نہیں اٹھائیں گے جہاں پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا میں ہاتھ نہیں اٹھائے، مثلاً: خطبہ جمعہ کے دوران دعا کرتے وقت ہاتھ نہیں اٹھائیں گے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دوران ہاتھ نہیں اٹھائے، لیکن دوران خطبہ بھی اگر بارش کی دعا مانگی جائے تو ہاتھ اٹھائے جاسکتے ہیں، کیونکہ دورانِ خطبہ بارش کی دعا کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے ہیں۔

اسی طرح  دو سجدوں کے درمیان ، سلام سے پہلے، اور آخری تشہد  میں [دعا کرتے ہوئے] بھی  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ نہیں اٹھائے، چنانچہ ہم بھی ان مقامات پر ہاتھ نہیں اٹھائیں گے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان جگہوں پر ہاتھ نہیں اٹھائے۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی عمل کرنا بھی حجت ہے، اور نہ کرنا بھی حجت ہے، یہی صورتِ حال  پانچوں نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھانے کے بارے میں ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شرعی اذکار کرتے وقت ہاتھ نہیں اٹھایا کرتے تھے، لہذا ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرتے ہوئے  فرض نمازوں کے بعد ہاتھ نہیں اٹھائیں گے۔

تاہم ایسی جگہیں جہاں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  ہاتھ اٹھائے ہیں، اس بارے میں سنت یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں  ہم بھی ہاتھ اٹھائے گے، کیونکہ  ان جگہوں پر ہاتھ اٹھانا قبولیت کے اسباب میں سے ہے، اسی طرح ایسی جگہیں جہاں پر کوئی  مسلمان دعا مانگنا چاہتا ہے، لیکن اس جگہ کے بارے میں  نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہاتھ اٹھانا یا  نیچے رکھنا  کچھ بھی منقول نہیں ہے، تو ایسی جگہوں  میں ہم ہاتھ اٹھائیں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ دعا میں ہاتھ اٹھانا قبولیت کے اسباب میں سے ، جیسے کہ پہلے گزر چکا ہے" انتہی
"مجموع فتاوى شیخ ابن باز رحمہ الله" (6/158)

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب