سوموار 17 جمادی اولی 1446 - 18 نومبر 2024
اردو

معاشرے كو زنا سے پاك كرنا

88051

تاریخ اشاعت : 17-08-2007

مشاہدات : 8922

سوال

دور حاضر ميں زانى مرد و عورت كے خلاف چار گواہ كس طرح لائے جا سكتے ہيں ؟
اور ہم اپنے مسلمان نوجوان كو اس قبيح عمل سے بچنے كى نصيحت كس طرح كر سكتے ہيں ؟
اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

علماء كرام چار طريقوں سے زنا كا ثبوت شمار كرتے ہيں:

1 – گواہى.

2 - اقرار.

3 - بغير خاوند اور بغير مالك كے حمل ٹھر جانے سے.

4 - جب خاوند اور بيوى كے مابين لعان ہو اور بيوى اس كا دفاع نہ كرے.

زنا كى گواہى كے ليے شرط يہ ہے كہ وہ چار گواہ ہوں جن كى گواہى جائز ہو، وہ صريح الفاظ كے ساتھ زنا كا وصف بيان كرے ـ يہ كہ انہوں نے مرد كا عضو تناسل عورت كى شرمگاہ ميں ديكھا ہے ـ اور اگر ان ميں سے كسى ايك نے بھى صرف يہ گواہى دى كہ اس نے انہيں بے لباس، يا كسى معين وصف يا حركت ميں ديكھنا بيان كيا تو يہ زنا كے ثبوت كے ليے كافى نہيں ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ " الشرح الممتع " ميں كہتے ہيں:

" وہ صريح الفاظ ميں زنا كا وصف بيان كريں كہ: ہم نے اس كا عضو تناسل عورت كى شرمگاہ ميں ديكھا ہے، يہ ضرورى ہے.

اور اگر وہ يہ كہيں كہ: ہم نے انہيں بے لباس ديكھا ہے، تو يہ قبول نہيں ہوگا، حتى كہ اگر وہ يہ بھى كہيں كہ ہم گواہى ديتے ہيں كہ وہ اس كے ساتھ اس طرح تھا جس طرح ايك خاوند اپنى بيوى كے ساتھ ہوتا ہے، تو يہ گواہى كافى نہيں.

بلكہ انہيں يہ كہنا ضرورى ہے كہ ہم گواہى ديتے ہيں كہ اس كا عضو تناسل اس كى شرمگاہ ميں تھا، اور يہ بہت مشكل ہے، جس طرح كہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے دور ميں جس شخص كے خلاف گواہى دى گئى تو وہ كہنے لگا: اگر ميں رانوں كے درميان ہوتا تو تم يہ گواہى نہ ديتے.

اس ليے شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے اپنے دور ميں يہ بيان كيا كہ: نبى عليہ السلام كے دور سے ليكر شيخ الاسلام كے دور تك كوئى بھى زنا گواہى كے ساتھ ثابت نہيں ہوا، تو جب اس وقت سے ليكر شيخ الاسلام كے دور تك يہ ثابت نہيں، تو اسى طرح ہم يہ نہيں جانتے كہ گواہى كے طريقہ سے ہمارے اس دور ميں آج تك زنا ثابت ہوا ہو؛ كيونكہ يہ بہت ہى مشكل ہے " انتہى.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 157 ).

زنا كى گواہى كےمعاملہ ميں يہ تشديد اور سختى كا شرعى مقصد صرف يہ ہے كہ بندوں كى راز دارى رہے، اور فحش كام كى اشاعت نہ ہو، اور معاشرہ ميں كسى كى عزت و نسب پر طعن و تشنيع نہ كى جائے، اور تہمت نہ لگے.

قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" خاص كر زنا ميں چار گواہ صرف اس ليے ركھے گئے ہيں كہ مدعى پر سختى كى جائے، اور بندوں كے معاملہ كو چھپايا جائے " انتہى.

ديكھيں: الجامع لاحكام القرآن ( 5 / 83 ).

اور شيخ عبد الرحمن السعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" قولہ:

وہ اس پر چار گواہ كيوں نہ لائے .

يعنى تہمت لگانے والوں نے اپنى اس تہمت كے متعلق چار گواہ كيوں نہ پيش كيے.

اربعۃ شھداء .

يعنى پسنديدہ اور عدل و انصاف كے مالك.

تو جب وہ گواہ نہيں لائے، تو وہ اللہ تعالى كے ہاں جھوٹے اور كذاب ہيں .

اگرچہ انہوں نے دل ميں اس كا يقين كر ليا تھا، تو يقينا وہ اللہ كے حكم ميں جھوٹے اور كذاب ہيں، كيونكہ اللہ تعالى نے چار گواہ نہ ہونے كى صورت ميں ان كے ليے اس كے متعلق بات كرنا حرام قرار دى ہے، اسى ليے اللہ سبحانہ وتعالى نے فرمايا:

تو يہ لوگ اللہ تعالى كے ہاں جھوٹے اور كذاب ہيں .

اور اللہ نے يہ نہيں فرمايا:

تو يہ جھوٹے ہيں.

يہ سب كچھ مسلمان شخص كى عزت كى حرمت اور تعظيم كے باعث ہے، اس ليے كہ سچائى كے چار گواہوں كے بغير كسى پر تہمت لگانى جائز نہيں " انتہى.

ديكھيں: التفسير السعدى ( 1 / 563 ).

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 839 ) اور ( 6926 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

دوم:

رہا مسئلہ اس مہلك فحش كام سے اپنے نوجوانوں اور معاشرہ كو محفوظ ركھنے اور بچانے كا تو اس كے ليے كوئى ايسا عمومى كام كرنا ضرورى ہے جس پر سب ملك اور معاشرے عمل كريں، اور مختلف ادارے اس كے ليے آپس ميں معاونت كريں.

يہ ايك انفرادى نہيں بلكہ اجتماعى ذمہ دارى اور مسؤليت ہے، اس سے معاشرہ اس وقت صورت ميں ہى محفوظ رہ سكتا ہے جب زنا كے ارتكاب اور زنا تك پہنچانے والے سب ذرائع سے محفوظ ركھنے والے اسباب پر عمل كيا جائے، اور وہ اسباب درج ذيل ہيں:

1 - لوگوں ميں يہ چيز عام كى جائے اور معاشرے ميں اس چيز كا علم پھيلايا جائے كہ زنا كا گناہ بہت زيادہ ہے، اور يہ ايسا كبيرہ گناہ ہے جس كے قبيح اور حرام ہونے پر عقل اور شريعت دونوں متفق ہيں، اور يہ بيان كيا جائے كہ يہ فعل دنيا ميں امتوں كى ہلاك، اور مصائب و حادثات كا سبب ہے، روز قيامت اس كى سزا آگ ہے.

امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" قتل كے بعد زنا سے بڑا كوئى اور گناہ نہيں "

ديكھيں: غذاء الالباب ( 2 / 435 ).

اور شيخ عبد الرحمن بن سعدى كہتے ہيں:

اور اللہ سبحانہ و تعالى نے زنى اور اس كى قباحت كو ان الفاظ ميں بيان كيا ہے:

كان فاحشۃ .

يقينا يہ فحش كام ہے، يعنى يہ ايسا فحش كام ہے جسے عقل اور شريعت اور فطرت بھى فحش كام تسليم كرتى ہے، كيونكہ يہ اللہ تعالى كے حق ميں زيادتى، اور عورت اور اس كے اہل و عيال يا خاوند كے حق ميں بھى زيادتى، اور خاوند كا بستر پراگندہ كرنا، اور نسب نامہ كو مخلوط بنانا اور اس كے علاوہ بھى كئى ايك خرابيوں پر مشتمل ہے.

قولہ: و ساء سبيلا . اور يہ راستہ ہى برا ہے.

يعنى اس عظيم گناہ كے ارتكاب كى جرات بہت برا راستہ ہے " انتہى

ديكھيں: تفسير السعدى ( 1 / 457 ).

2 - نوجوانوں كو اس فحش كام كے انتشار كے نتيجہ ميں پيدا ہونے والے غلط اور برے اثرات معلوم كرائے جائيں، جن كى بنا پر خاندان اور معاشرے كو قائم ركھنا مشكل ہو جاتا ہے، مثلا مہلك بيماريوں كا عام ہونا، اور حرام بچوں كا پيدا ہونا، اور خاندانى تسلسل كا خاتمہ، اور بچوں كو قبول نہ كيا جانا، اور انہيں برے سلوك كا سامنا كرنا، اور طلاق كى شرح ميں اضافہ ہونا، اور جرائم كا عام ہو جانا، اس كے علاوہ بھى كئى ايك خرابياں پيدا ہوتى ہيں.

جن معاشروں ميں يہ فحش كام اور گندگى عام ہو اس معاشرے ميں يہ برے اثرات عام ہيں، جو ان كے معاشرے كو تباہ اور ان كى ترقى و تمدن كو ساقط كر كے ركھ ديتے ہيں.

3 - جنسى تعلقات قائم كرنے كے ليے شرعى راہ اختيار كرنے ميں آسانى پيدا كى جائے، يعنى حلال طريقہ سے شادى ميں آسانى پيدا كى جائے، اور يہ اس طرح ہو سكتا ہے كہ نوجوانوں كو شادى كى رغبت دلائى جائے، اور اس سلسلے ميں شريعت مطہرہ نے كيا كچھ جائز اور مندوب كيا ہے اسے عام كيا جائے، اور يہ بتايا جائے كہ شادى كرنا سب رسولوں اور انبياء كى سنت اور طريقہ رہا ہے، اور يہ كہ شادى كرنے والے شخص نے اپنا دين مكمل كر ليا، اور يہ كہ اپنے اور بيوى كے ليے عفت و عصمت اختيار كرنے ميں اسے اجروثواب حاصل ہو گا.

4 - معاشرے كے افراد كى ذمہ دارى ہے كہ وہ تمام ركاوٹيں اور مشلكات دور كريں جو شادى ميں تاخير كا باعث ہوں، چنانچہ فقر و محتاجگى كا علاج كيا جائے جو شادى ميں مانع اور ركاوٹ بن سكتى ہے، اور جس نوجوان كے پاس اپنى عفت و عصمت كے ليے شادى كرنے كے ليے مالى استطاعت نہ ہو اس كى مالى مدد كى جائے.

حتى كہ قرطبى رحمہ اللہ درج ذيل آيت كى تفسير ميں كہتے ہيں:

قولہ تعالى:

اور تم اپنے ميں يتيم لڑكيوں اور نيك و صالح بندوں اور اپنى لونڈيوں كا نكاح كر دو، اگر وہ فقير اور محتاج ہيں تو اللہ تعالى انہيں اپنے فضل سے غنى كر دےگا، اور اللہ تعالى وسعت والا جاننے والا ہے النور ( 32 ).

" يعنى اپنى ان عورتوں كى شادى كردو جن كے خاوند نہيں، كيونكہ شادى ہى عفت و عصمت كى راہ ہے " انتہى.

ديكھيں: تفسير القرطبى ( 12 / 239 ).

اور ابو عبيد القاسم بن سلام اپنى كتاب " الاموال " ميں لكھتے ہيں:

" عمر بن عبد العزيز رحمہ اللہ نے عراق ميں اپنے گورنر كو خط لكھا كہ وہ ہر كنوارے شخص كو ديكھے كہ وہ شادى كرنا چاہتا ہے ليكن اسكے مال نہيں، تو اس كى شادى كر كے اس كا مہر ادا كرو "

ديكھيں: الاموال ( 251 ).

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اگر بيٹا شادى كا محتاج ہو تو اس كى عفت و عصمت كو قائم ركھنے كے ليے والد كے ذمہ ہے كہ وہ بيٹے كى شادى كردے، امام شافعى رحمہ اللہ كا ظاہر مسلك يہى ہے " انتہى.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 7 / 587 ).

5 - اس اہم مسئلہ ميں والد اور معاشرے پر واجب اور ضرورى ہے كہ و حتى الامكان مہر كى رقم زيادہ نہ ركھيں، اور نہ ہى شادى كے اخراجات ميں ايك دوسرے پر فخر اور دكھلاوا كرتے زيادہ خرچ كريں، يا اس شادى كو كمائى كا ذريعہ نہ بنائے.

عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے منبر نبوى پر خطاب كرتے ہوئے كہا تھا:

" خبردار عورتوں كے مہر زيادہ مت طلب كرو، كيونكہ اگر يہ مہر دنيا ميں كسى عزت و شرف كا مقام ہوتا، يا پھر اللہ تعالى كے ہاں تقوى و پرہيزگارى كا باعث ہوتا تو پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس كے زيادہ لائق تھے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى كسى بھى بيوى اور نہ ہى آپ كى كسى بيٹى كو بارہ اوقيہ سے زيادہ مہر ديا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2106 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

مصلح افراد كا اس ميں كوئى اختلاف نہيں كہ والدين كا اپنى بيٹيوں كے مہر زيادہ طلب كرنا معاشرے ميں خرابى و فحاشى كے انتشار كا باعث ہے.

بعض يورپى معاشروں ميں تاريخ كے كئى ادوار ميں فحاشى كے پھيلنے كے اسباب بيان كرتے ہوئے وول ڈيورنٹ اپنى كتاب " مباھج الفلسفۃ " ميں لكھتا ہے:

" اس ميں كوئى نزاع نہيں كہ كسى حد تك اس كا سبب والدين كى جانب سے اپنى بيٹيوں كا زيادہ مہر طلب كرنا ہے، صراحتا يہ كہ شادى كے وقت خريدا جاتا ہے " انتہى.

ديكھيں: مباھج الفلسفۃ ( 127 - 128 ).

6 - معاشرے كو اس خسيس اور فحش كام سے بچانے والى سب سے اہم چيز يہ ہے كہ خاوند اور بيوى كے مابين محبت و مودت كى اشاعت اور عام كى جائے، اور خاندان ميں محبت، احترام، اور صدق و وفا، اور واجب كردہ حقوق كى ادائيگى كے ساتھ سعادت كى حرص و كوشش ہو.

كيونكہ ايك سعادت مند خاندان اور ايك دوسرے كو سمجھنے اور آپس ميں محبت و الفت ركھنے والے خاوند اور بيوى ہى معاشرے ميں فحاشى و انحراف كو پھيلنے سے روك سكتے ہيں، اور سعادت كا باعث بنتے ہيں.

7 - آخر ميں ہم يہ كہينگے كہ: ايسى فضا اور ماحول تيار كرنا ضرورى ہے جو اسلامى اصول كا پاپند اور محافظ، اور اللہ كے ساتھ تعلق ركھنے والا ہو، جہاں بےپردگى و فحاشى كے مظاہر چھپ جائيں، اور ستر پوشى ہو، اور شراب و گانے بجانے كے آلات جو كہ زنا كا زينہ اور سيڑھى ہيں يہ سب كچھ وہاں ممنوع ہو.

كيونكہ يہ سب امور ايسا ايندھن ہے جس سے فحاشى كى آگ بھڑكتى ہے، اس ليے جب معاشرہ اس سے خلاصى اور چھٹكارا حاصل كر لے گا تو اس آگ سے بھى محفوظ رہےگا.

ہمارى اسى ويب سائٹ پر درج ذيل سوالات كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں:

سوال نمبر ( 20161 ) اور ( 3234 ).

اور اس موضوع كے متعلق مفيد كتابوں ميں ڈاكٹر فضل الہى كى كتاب " التدابير الواقعيۃ من الزنا " كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب