سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

حيض كا غسل كرنے سے قبل عورت كا اپنے بال كاٹنا

88232

تاریخ اشاعت : 27-05-2008

مشاہدات : 4830

سوال

كيا حيض كا غسل كرنے سے قبل عورت كے ليے بال كاٹنے جائز ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

عورت كے ليے حيض كا غسل كرنے سے قبل يا بعد ميں اپنے ناخن يا بال كاٹنے ميں كوئى حرج نہيں؛ ليكن عورت اپنے بال كاٹنے وقت يہ خيال ركھے كہ اس ميں اسے يہ خيال كرنا چاہيے كہ وہ مردوں يا كافرہ عورتوں كے مشابہ نہ ہوں.

عورت كے ليے سر كے بال كاٹنے كے جواز كى دليل درج ذيل روايت ميں پائى جاتى ہے:

امام مسلم رحمہ اللہ ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے بيان كرتے ہيں كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ازواج مطہرات اپنے سروں كے بال كاٹا كرتى تھيں، حتى كہ ان كے بال وفرہ جتنے ہوتے تھے "

الوفرۃ كانوں سے نيچے بالوں كو كہتے ہيں.

صحيح مسلم حديث نمبر ( 320 ).

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" قاضى عياض رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

لگتا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ازواج مطہرات نے يہ فعل آپ كى وفات كے بعد كيا ہے كيونكہ انہوں نے زينت ترك كر دى تھى، اور بال لمبے ركھنے كى انہيں كوئى ضرورت ہى نہ رہى تھى اور اپنے سروں كى ديكھ بھال ميں تخفيف كے ليے ايسا كيا تھا.

قاضى عياض رحمہ اللہ نے يہى ذكر كيا ہے كہ انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات كے بعد ايسا كيا تھا، نہ كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زندگى ميں، قاضى كے علاوہ دوسروں نے بھى يہى كہا ہے، اور يہ چيز متعين ہے، اور ان كے متعلق تو يہ گمان بھى نہيں كيا جا سكتا كہ انہوں نے يہ عمل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زندگى ميں كيا تھا.

اور اس ميں عورتوں كے ليے سر كے بال چھوٹے كرنے كى دليل پائى جاتى ہے: واللہ تعالى اعلم " انتہى.

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" عورت كے ليے اپنے بال كاٹنے ميں ہميں كچھ علم نہيں، ان كے متعلق سر كے بال منڈانے ممنوع ہيں، لہذا آپ كے ليے اپنے سر كے بال منڈانے جائز نہيں، ليكن انہيں كٹوا سكتى يا كم كروا سكتى ہيں اس ميں ہم كوئى حرج نہيں سمجھتے.

ليكن يہ كام اچھے اور بہتر انداز ميں جس پر آپ اور آپ كا خاوند راضى ہو ہونا چاہيے، آپ اس كے ساتھ متفق ہوں، ليكن اس ميں كافرہ عورتوں كے ساتھ مشابہت نہيں ہونى چاہيے، اور اس ليے بھى كہ بالوں كے لمبا ہونے ميں انہيں دھونے اور كنگھى كرنے ميں تكلف كرنا پڑنا ہے، چنانچہ اگر بال زيادہ اورلمبے ہونے كى بنا پر عورت ان ميں سے كچھ كاٹ لے تو يہ اسے كوئى ضرر نہيں ديگا.

يا اس ليے كہ ان ميں سے كچھ بال كاٹنے ميں خوبصورتى و جمال ہے جس پر وہ اور اس كا خاوند راضى ہو تو ہميں اس ميں كوئى حرج محسوس نہيں ہوتا، ليكن انہيں بالكل مونڈنا جائز نہيں، صرف كسى بيمارى يا علت كى بنا پر مونڈا جا سكتا ہے "

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے " انتہى.

ماخوذ از: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 2 / 515 ).

شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:

" عورت كے ليے پيچھے سے بال كاٹنے اور اس كى سائڈوں سے نہ كاٹنے اور دونوں طرف كے بال لمبے رہنے دينا جائز نہيں؛ كيونكہ اس ميں بدصورتى اور بالوں كے ساتھ كھيل اور عبث ہے جو كہ اس عورت كى خوبصورتى و جمال تھے.

اور اس ميں كافرہ عورتوں سے مشابہت بھى ہے، اور اسى طرح مختلف قسم كے كٹ، اور كافرہ عورتوں يا حيوانات كے نام كے كٹ بنوانا بھى جائز نہيں مثلا: ڈيانا كٹ ( كافرہ عورت كا نام ہے ) يا شير كٹ، يا چوہا كٹ؛ كيونكہ كفار اور حيوانات سے مشابہت اختيار كرنا جائز نہيں، اور اس ليے بھى كہ اسميں عورت كے بالوں كے ساتھ كھيل اور عبث ہے حالانكہ بال تو اس كى خوبصورتى و جمال ہے " انتہى.

ماخوذ از: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 2 / 516 - 517 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب