الحمد للہ.
مسئلہ ميں دو طرح سے بحث كى جائےگى:
اول:
ميت كى وصيت پر عمل كرنا.
دوم:
فوت ہونے والى جگہ سے كسى اور شھر ميں ميت منتقل كرنا.
پہلے مسئلہ كے متعلق گزارش ہے كہ: ميت كى وصيت پر عمل كرنا واجب ہے، چاہے وہ كسى واجب كى وصيت كرے يا مستحب كى يہ سب برابر ہے.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 5 / 333 ).
دوسرا مسئلہ:
الشيخ ابن قدامۃ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
كسى صحيح غرض كى بنا پر ہى ميت كو ايك شہر سے دوسرے شہر منتقل كيا جا سكتا ہے، يہ اوزاعى اور ابن منذر رحمہما اللہ كا مسلك ہے....
اور اس ليے كہ اس ميں اس كے كفن دفن ميں خرچ بھى كم ہے، اور اس ميں تغير اور تبديلى پيدا ہونے سے بھى بچاؤ ہے، ليكن اگر اسے منتقل كرنے ميں كوئى صحيح غرض اور مقصد ہو تو پھر جائز ہے.
ديكھيں: المغنى ( 2 / 193 - 194 ).
اس موضوع ميں مستقل فتوى كميٹى كا كہنا ہے:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين كے دور ميں عملى سنت يہ تھى كہ مردے كو اسى شہر كے قبرستان ميں دفن كيا جاتا تھا جہاں وہ فوت ہوتا، اور شھداء كو بھى وہيں دفن كيا جاتا جہاں ان كى شہادت ہوتى تھى.
كسى حديث ميں يہ ثابت نہيں اور نہ ہى كسى صحابى كے اثر سے ثابت ہوتا ہے كہ كسى ايك كو وہاں سے كسى دوسرے علاقے اور شہر ميں منتقل كيا ہو بلكہ جہاں وہ فوت ہوتا اس كے قريب ترين قبرستان ميں اسے دفن كيا جاتا تھا.
اسى بنا پر جمہور فقھاء كرام كا كہنا ہے كہ:
ميت كو دفن كرنے سے قبل اس كے فوت ہونے والے شہر يا ملك سے كسى دوسرے ملك منتقل كرنا جائز نہيں ہے، صرف كسى صحيح مقصد اور غرض كى بنا پرمنتقل كى جاسكتى ہے، مثلا يہ خدشہ ہو كہ جہاں فوت ہوا ہے وہاں دفن كرنے سے اس كى قبر پر زيادتى ہو كى جائےگى، يا اس كى كے دشمن كى جانب سے اس ميت كى حرمت پامال كى جائےگى، يا اس كى ہتك كى جائےگى، اور اسكا خيال نہيں كيا جائےگا، تو اس صورت ميں اسے امن والى جگہ منتقل كرنا واجب ہے.
اور اسى طرح اس كے خاندان والوں كى خوشى كے ليے اس كے ملك ميں منتقل كرنا جائز ہے تا كہ وہ اس كے اہل وعيال اس كى زيارت كر سكيں.
اور ان اسباب كے ساتھ انہوں نے يہ شرط ركھى ہے كہ تاخير كى بنا پر اس ميں تغير اور تبديلى ہونے كا خدشہ نہ ہو، اور اس كى حرمت پامال نہ ہوتى ہو، اور اگر وہاں كوئى سبب نہ ہو اور نہ ہى كوئى شرط پائى جاتى ہو تو پھر اس كا منتقل كرنا جائز نہيں ہے.
لھذا كميٹى كى رائے يہى ہے كہ ہر ميت كو اس كےمقامى شہر كے قبرستان ميں دفن كيا جائے جہاں وہ فوت ہو، اور سنت، اور امت كے اسلاف كے طريقہ پر عمل كرتے ہوئے، اور سد ذريعہ، اور شريعت مطہرہ كا دفن ميں جلدى كرنے كو ثابت كرتے ہوئے، اور ميت كو تغير سے بچانے كے ليے كيے جانے والے اقدامات كرنے سے پرہيز اور بچاؤ كرتے ہوئے، اور بغير كسى ضرورت كے مال كوبے دريغ اور فضول خرچ كرنا، جس كى شرعى كوئى حاجت اورضروت نہيں، اور ورثاء كے حقوق كا خيال كرتے ہوئے، اور شرعى مصارف كو مد نظر ركھتے ہوئے، اور ان نيك اور صالح اعمال كو ديكھتے ہوئے جہاں يہ مال صرف كرنا ضرورى ہے، اسے بغير كسى صحيح غرض كے وہاں سے دوسرے ملك يا شہر منتقل نہ كيا جائے.
اور اس پر كميٹى كے ممبران كے دستخط ہوئے.
اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور ان كے صحابہ كرام پر اپنى رحمتوں كا نزول فرمائے.
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 2 / 31 - 32 ).
اور ميت كے اقربا نے جو كچھ كيا ہے اس كے متعلق يہ ہے كہ:
اگر تو انہوں نے وصيت كى مخالفت وصيت كا علم ہونے اور بيوى كے بتانے كے بعد بيوى كى سچائى ميں شك اور اسے متھم گردانتے ہوئے كى تو ان پر كچھ لازم نہيں آتا، كيونكہ انہوں نے جان بوجھ كر مخالفت نہيں كى.
اور اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
تم سے جو كچھ بھول چوك ميں ہو جائے اس ميں تم پر كوئى گناہ نہيں، البتہ گناہ وہ ہے جس كا تم دل سے ارادہ كرو الاحزاب ( 5 ).
ليكن اگر انہوں نے بيوى كو سچا مانا اور اس كے باوجود وصيت كى مخالفت كى تو وہ ميت كے حق ميں زيادتى كرنے كى بنا پر گنہگار ہيں.
اور رہا مسئلہ اس مسافت پر دوسرى جگہ ميت كو منتقل كرنے كا اگر تو اس ميں ان كى كوئى صحيح غرض نہ تھى تو يہ ميت كے حق پر دوسرى زيادتى ہے، كيونكہ ميت كى تكريم اسى ميں ہے كہ اسے جلداز جلد دفن كيا جائے، جيسا كہ علماء كرام كا كہنا ہے.
ديكھيں: المدخل لابى الحاج المالكى ( 3 / 237 ).
لھذا انہيں اس فعل پر توبہ و استغفار كرنى چاہيے، اور اپنے كيے پر نادم ہونا چاہيے اور ميت كے ليے دعا كريں، اور ان پر كوئى صدقہ وغيرہ لازم نہيں آتا، ليكن اگر وہ صدقہ كرليں تو بہتر اور اچھا ہے، كيونكہ صدقہ مغفرت و بخشش اور گناہوں كے كفارہ كا ايك سبب ہے.
واللہ اعلم .