الحمد للہ.
اللہ تعالی نے جس نفس کوقتل کرنا حرام کیا ہے یقینا اسے قتل کرنا سب سے بڑا گناہ ہے اسی بارہ میں اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
اورجوکوئي کسی مومن کو قصدا قتل کرڈالے ، اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہے گا ، اس پراللہ تعالی کا غضب ہے اوراسے اللہ تعالی نے لعنت کی ہے اوراس کے لیے بڑا عذاب تیار کررکھا ہے النساء ( 93 ) ۔
انس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کبیرہ گناہ کے متعقل پوچھا گیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا ، والدین کی نافرمانی کرنا ، کسی نفس کوقتل کرنا ، جھوٹی گواہی دینا ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2510 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 88 ) ۔
ابن عمررضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( مومن اس وقت تک اپنے دین کی وسعت میں ہے جب تک حرام خون نہ بہا لے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 6469 ) ۔
اورپاکدامن عورتوں پرزنا کی تہمت لگانی جائز نہیں ، اورپھرزناکا ثبوت بھی اس وقت ہوتا ہے جب چارمرد اس بات کی گواہی دیں کہ انہوں نے بعینہ زنا کا واقع دیکھا ہے ، اورانہوں نے فرج کوفرج میں داخل دیکھا ہے یا پھر زنا کا ثبوت زانی عورت یا مرد کے اعتراف سے ہوتا ہے اوراس اعتراف میں کوئي اکراہ اورجبر نہ ہو ۔
اوراس کے علاوہ جوکچھ بھی ہوگا وہ مسلمان عورت پرزنا کی تہمت ہے اوراس کی حد اسی کوڑے ہیں ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
جولوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائيں پھرچارگواہ نہ پیش کرسکیں توانہيں اسی کوڑے لگاؤ اورکبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو یہی فاسق لوگ ہیں النور ( 4 ) ۔
ابوھریرہ اورزید بن خالد جھنی رضی اللہ تعالی عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( اے انیس اس عورت کے پاس جاؤ اگروہ اعتراف کرلے تواسے رجم کردینا ، راوی کہتے ہیں کہ : وہ اس عورت کے پاس گئے تواس نے اعتراف کرلیا لھذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا تواسےرجم کردیا گيا ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2575 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1698 )۔
اللہ تعالی نے زانی مرد اورزانیہ عورت کے لیے محدود سزا مقرر کی ہے لھذا زانی مرد وعورت اگر شادی شدہ ہوں توانہيں رجم کیا جائےگا ، اورجوشادی شدہ نہ ہواسے ایک سوکوڑے مارے جائيں گے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
زنا کارمردوعورت میں سے ہرایک کوسوکوڑے لگاؤ ، ان پراللہ تعالی کی شریعت کی حدجاری کرتے ہوئے تمہیں ہرگز ترس نہیں کھانا چاہیے ، اگر تم اللہ تعالی اورقیامت کے دن پرایمان رکھتے ہو ، اوران کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موجود ہونی چاہیے النور ( 2 ) ۔
جابررضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ اسلم قبیلہ کا ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے وہ شخص کہنے لگا کہ اس نے زنا کا ارتکاب کیا ہے ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سےاعراض کرلیا ، لھذا وہ شخص اس طرف آیا جس طرف آپ نے اعراض کیا تھا اوراس نے اپنے آپ پرچارگواہیاں دیں تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اورفرمانے لگے :
کیا تم مجنون ہو؟ اس نے جواب میں کہا نہيں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کیا شادی شدہ ہو ؟ تواس نے جواب میں کہا جی ہاں ، لھذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے عیدگاہ میں رجم کرنے کا حکم دیا ، جب اسے پتھر لگے تووہ بھاگ اٹھا تواسے حرہ نامی جگہ پاکر قتل کردیا گيا ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4969 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1691 )
اگریہ کہا جائے کہ زنا کی حد کون لگائے گا ؟
تواس کا جواب یہ ہے کہ :
کسی ایک کےبھی یہ لائق نہيں کہ وہ حکمران کی اجازت کےبغیرہی حدود نافذ کرے ، اگرشریعت اسلامیہ کے مطابق فیصلے کرنے والا حکمران اورسلطان نہ ہوتوعام لوگوں کے لیے جائزنہيں کہ وہ حدود کا نفاذ کریں ، کیونکہ حدنافذ کرنے کےلیے اس کے ثبوت اوراسے نافذ کرنے لیے اجتھاد اورشرعی علم کی ضرورت ہوتی ہے ، تاکہ اسے علم ہوسکے کہ حدکب ثابت ہوگي اورکب نفی ہوگي اوراس کی شروط کیا ہيں ۔۔۔ الخ
اورعام لوگ اس کا علم ہی نہيں رکھتے ، اورپھرعام لوگ اگرحدود نافذ کرنا شروع کردیں تواس پربہت ہی زيادہ فساد مرتب ہونگے ، اورمعاشرے کاامن تباہ ہوکررہ جائے گا ، اس طرح لوگ ایک دوسرے پرزیادتی کرنی شروع کردیں گے اورایک دوسرے پرالزام لگا کرحدود نافذ کرنے کی دلیل دیتے ہوئے ایک دوسرے کو ہی قتل کرنا شروع کردینگے ۔
امام قرطبی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
اس میں کوئي اختلاف نہيں کہ قتل کا قصاص اولی الامر کے علاوہ کوئي اورنہیں لے سکتا اولی الامر ہی ہیں جن پرقصاص اورحدود کا نفاذ کرنا واجب اورفرض ہے اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے سب مومنوں کوقصاص کے ساتھ مخاطب کیا ہے ، پھرسب مومنوں کے لیے یہ نہيں تیار کیا گيا ہے وہ قصاص پراکٹھے ہوجائيں ، بلکہ سلطان اورحکمران کوقصاص اوردوسری حدود نافذ کرنے میں ان کے قائم مقام بنایا ۔
دیکھیں : تفسیر القرطبی ( 2 / 245 - 246 ) ۔
اورابن رشد رحمہ اللہ کہتے ہیں :
اوراس حد ( یعنی شراب نوشی کرنے والے کوکوڑے مارنے ) کونافذ کون کرے گا ؟ علماء کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ امام وحکمران اس حد کونافذ کرے گا اوراسی طرح باقی ساری حدود کے نفاذ میں بھی ۔
دیکھیں : بدایۃ المجتھد لابن رشد ( 2 / 233 ) ۔
اورامام شوکانی رحمہ اللہ تعالی کہتےہیں :
ابوالزناد اپنے باپ اوروہ ان فقھاء سے بیان کرتےہیں جن کے اقوال اہل مدینہ تک جا کرختم ہوتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ : کسی ایک کے لیے بھی یہ جائز نہيں کہ وہ حکمران اورسلطان کے بغیر ہی حدود کا نفاذ کرے ، لیکن مالک اپنے غلام اورلونڈی پرحدنافذ کرسکتا ہے ۔
دیکھیں : نیل الاوطار للشوکانی ( 7 / 295 - 296 ) ۔
اورعورت کے خاندان والوں پرفرض اورضروری ہے کہ وہ اسے فحاشی اوربدکاری سے منع کریں اوراسے فحاشی کے ہرقسم کے اسباب سے بھی منع کرتے ہوئے بے پردگی کرنے اور اجنبی مردوں سے بات چیت کرنے سے روکیں ، اوراسی طرح ہراس سبب سے جس کی بنا پربرا کام کرنا ممکن ہو سے بھی منع کریں ، اوراگروہ ایسے کاموں اوراسباب سے قیدوبند کے بغیر نہيں رکتی توگھروالوں کے جائز ہے کہ وہ اسے گھرمیں قید بھی کردیں ۔
لیکن اسے قتل کرنا جائز نہيں ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی سے اس عورت کے بارہ میں سوال کیا گیا جوشادی شدہ اورصاحب اولاد بھی تھی اوراس نے ایک مرد سے ناجائز تعلقات قائم کرلیے ، اورجب یہ تعلقات ظاہر ہوئے تواس نے خاوند سے علیحدگي کی کوشش کرنا شروع کردی ، توکیا اس فعل کے بعداسے اپنی اولاد پرکوئی حق باقی رہتا ہے ؟ اورکیا ان پراس سے قطع تعلقی کرنے میں کوئي گناہ ہے ؟
اورجس شخص کواس کا ثبوت مل جائے توکیا اس کے لیے اس عورت کوخفیہ طریقہ سے قتل کرنا جائز ہے ؟ اوراگر اس کے علاوہ کوئي اور کرے تووہ گنہگار ہوگا ؟
شیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی نے جواب دیا :
اس عورت کی اولاد اوراس کے عصبات ( یعنی مرد اقرباء ) پرفرض ہے کہ وہ اسے حرام کاموں سے روکیں ، اوراگروہ قیدوبند کے بغیرنہيں رکتی تواسے گھرمیں ہی بند کریں اوراگر اسے قید کرنے کی بھی ضرورت محسوس ہوتواسے قید کردیں ، اوربیٹے کویہ زيبا نہيں دیتا کہ وہ اپنی ماں کوزدکوب کرے ، اورماں کواس سے نیکی واحسان کرنے سے منع نہيں کرسکتے ، اوران کے لیے قطع تعلقی کرنا جائز نہيں کہ اس سے برائي میں جاپڑے گی ، بلکہ وہ حسب استطاعت اسے برائي سے روکیں ، اوراگروہ کھانے پینے اورلباس کی ضرورت مند ہوتواسے کھانا پینا اورلباس دیں ۔
ان کے لیے جائز نہيں کہ وہ اس پرقتل وغیرہ کی حدنافذ کریں ایسا کرنے میں وہ گنہگار ہونگے ۔
دیکھیں : مجموع الفتاوی الکبری لابن تیمیۃ ( 34 / 177 - 178 )
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عھد مبارک میں بھی چندایک عورتوں نے زنا کا ارتکاب کیا توان کے خاندان میں سے کسی نے بھی ان میں سے کسی کوقتل نہيں کیا ، ان میں ایک عورت غامدی قبیلہ سے تعلق رکھتی تھی رضی اللہ تعالی عنہا :
بریدہ بن حصیب رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ : ۔۔۔ ازد قبیلے کی شاخ غامد کی عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئي اورکہنے لگی : اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے پاک کریں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تیرے لیے ھلاکت ہواللہ تعالی سے توبہ واستغفار کرو ، تووہ کہنے لگی میرے خیال میں آپ مجھے بھی اسی طرح واپس بھیج رہے ہیں جس طرح ماعز بن مالک (رضي اللہ تعالی عنہ ) کوواپس کیا تھا ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تجھے کیا ہے ؟ وہ کہنے لگی وہ زنا سے حاملہ ہے ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ تو؟ وہ کہنے لگي جی ہاں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا : وضع حمل کے بعد آنا، راوی کہتے ہیں کہ ایک انصاری صحابی نے وضع حمل تک اس کی کفالت کی ، راوی کہتے ہيں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہنا لگے غامدیہ عورت نے بچہ جن دیا ہے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ہم اسے رجم نہيں کرینگے اوراس کا چھوٹا سا بچہ ویسے ہی چھوڑ دیں جسے دودھ پلانے والا ہی کوئي نہ ہو ، توایک انصاری شخص کھڑا ہوکرکہنے لگا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی رضاعت میرے ذمہ ، راوی کہتے ہیں کہ تواسے رجم کردیا گیا ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1695 ) ۔
اس کے بعد ہم یہ کہيں گے کہ اس عورت کے خاندان والے جویہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ قتل کی مستحق ہے ان کا یہ دعوی اس کے علاوہ بھی کئي ایک اعتبار سے غلط ہے جویہ ہیں :
1 - اگران کے بیٹوں یا بھائیوں میں سے کوئي ایک زنا کا ارتکاب کرلے توبلاشبہ یقینا وہ یہی کام ان کے ساتھ نہيں کرینگے ، اوران کا ایسا کرنا اہل جاھلیت کے عمل کےمشابہ ہے کہ انہوں نے بھی اپنے لیے زنا مباح کررکھا تھا اورعورتوں کے لیے نہيں ، اورجب ان کی عورتیں یہ کام کریں توان کی عزت وشرف میں خرابی پیدا ہوتی ہے اورانہيں حمیت گھیر لیتی ہے ، لیکن اگر ان کے بیٹے یا بھائي یہی کام کریں توان کےلیے دین کی کوئي حمیت ظاہر نہيں ہوتی ، بلکہ بعض باپ تواپنے بیٹے کی برائي پرفخر کرتے ہیں اوراسے ایسا کرنے پر ابھارتے ہیں ۔
2 - انہوں نے خود ہی عورتوں کے لیے فحاشی کا دروازہ کھولا ہے ، اور عورت کومختلط سکولوں میں تعلیم اورگندی صحبت ودوستی اورحرام کاموں کے مشاھدہ کرنے اوربری مجالس میں بیٹھنے کی اجازت دی تواس کام نے ان کے دل تباہ کرکے رکھ دیے اوراسے فحاشی کے ساتھ وابستہ کردیا ۔
اورکچھ لوگ تواپنی بیٹی یا بہن کی شادی ہی نہيں کرتے بلکہ اس کی شادی کی عجیب وغریب شرطیں رکھتے ہيں جوپوری کرنا ہی مشکل ہوتی ہیں ، اوریہ سب کچھ کرنے کےبعد یہ لوگ عورت کوسزا دینا چاہتے ہیں حالانکہ وہ توخود سزا کے زيادہ مستحق ہیں ۔
3 - وہ زناجیسے فحش کام پرہی قتل نہيں بلکہ وہ توصرف بات چیت یا حرام تعارف کی بنا پربھی قتل کرڈالتے ہیں جس کی شریعت میں سزا قتل نہيں۔
4 - وہ اس فارغ دلیل کے ساتھ ہراس کے لیے دروازہ کھولتے ہیں جواپنی بہن یا بیٹی کوقتل کرنا چاہتا ہے ، اور ہوسکتا ہے اس کے قتل کا سبب اس عورت کا مال ہویا پھر اس عورت کوان کی کسی خفیہ چيز کا علم ہوچکا ہوجسے وہ چھپا کررکھنا چاہتے تھے یا اس طرح کا کوئي اورسبب ۔
اور ہم وقتا فوقتا کفار یورپ یا مشرق میں س منحرف قسم کے لوگوں سے یہ سنتے رہتے ہیں جوبھی شرف وعزت کی بنا پراپنی بہن یا بیٹی کوقتل کرے اسے بھی قتل کرنا چاہیے ، اس کا سبب یہ ہے کہ بہت سے قوانین میں اس سبب کی بنا پرقتل کرنے والے قاتل کومعافی دی گئي ہے ۔
اوراس طرح کی آوازيں اگرچہ صحیح ہی ہیں لیکن ہمیں یہ لائق نہيں دیتا کہ ہم ان اوران کے دعووں سے دھوکہ کھاجائیں ، کیونکہ اس طرح کی آوازوں کا مقصد عورت کے خاندان والوں سے غیرت کونکال باہرکرنا ، اورعورتوں کے لیے دروازہ کھولنا تاکہ وہ فحاشی کی مرتکب ہوں ، یہ مقصد ہوتا ہے ۔
عورتوں کے اولیاء پر ضروری اورواجب ہے کہ اللہ تعالی کا تقوی وڈر اختیارکریں اورجوان کےماتحت ہیں انہيں فحاشی کے کاموں سے روکیں ، اوراسی طرح اس کے اسباب سے بھی روکیں ، اس میں کسی بھی قسم کی کوئي کمی کوتاہی یا پھرتشدد سے کام نہ لیں جس کا شریعت انکار کرتی ہے ۔
واللہ اعلم .