جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

بنك كے ہاں كمپنى كى نمائندگى اور كسى دوسرے شخص كو معاملات طے كرنے كى تعليم دينے كا حكم

سوال

ميں بنك كے ساتھ لين دين كرنے والى كمپنى ميں ملازمت كرتا ہوں اور كمپنى كى طرف سے بنك كے ليے نمائندگى كا كام كرتا تھا، الحمد للہ ميں نے اس كام سے توبہ كر لى ہے، ليكن كام چھوڑنے سے قبل ميں نے يہ كام ايك دوسرے شخص كے سپرد كيا اور اسے بنك كے ساتھ معاملات طے كرنے كى ٹريننگ بھى دى تا كہ وہ ميرى جگہ پر معاملات طے كر سكے، ميں جو كچھ كيا ہے اگر وہ سب حرام ہے تو مجھے كيا كرنا ہوگا، ميں نے جو كچھ اسے سكھايا تھا اس كے مطابق وہ بنكوں كے ساتھ لين دين كرتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اسلامى بنك نہ ہونے كى صورت ميں سودى بنكوں ميں بغير فوائد اور سود كے رقم ركھنے، اور كمپنيوں كى ضرورت كے پيش نظر بنك ميں رقم ركھنا تا كہ مال كى حفاظت ہو سكے، اور اسے تجارت ميں لايا جائے تو اس ميں كوئى حرج نہيں.

ليكن اگر بنك كے ساتھ حرام لين دين پر مشتمل ہو مثلا سود پر قرض لينا، يا كسى اور صورت ميں مثلا بنك كے ذريعہ خريدارى كرنا، اور اس ميں سودى اكاؤنٹ كھولنا وغيرہ تو يہ لين دين حرام ہے، اور كسى كے ليے بھى ايسا لين دين كرنا جائز نہيں، كيونكہ اس ميں گناہ و معصيت اور ظلم و زيادتى ميں تعاون ہوتا ہے، اور سود كا اقرار اور اس كى گواہى دينا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور تم نيكى و بھلائى اور تقوى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہو، اور برائى و گناہ اور معصيت و ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كے ساتھ تعاون مت كرو، اور اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو يقينا اللہ تعالى سخت سزا دينے والا ہے المآئدۃ ( 2 ).

اور مسلم شريف كى حديث ميں ہے كہ جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود كھانے، اور سود كھلانے، اور سود لكھنے، اور سود كى گواہى دينے والے دونوں اشخاص پر لعنت كى اور فرمايا: وہ سب برابر ہيں "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1598 ).

اس بنا پر اگر تو كمپنى كا بنك كے ساتھ لين دين اس صورت ميں ہے تو آپ نے اس كام كو چھوڑ كر بہت اچھا كيا ہے، اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كى توبہ قبول فرمائے.

ليكن آپ نے اپنے علاوہ دوسرے شخص كو اس كام كى تعليم دے كر غلط كيا ہے، كيونكہ حرام كام كى راہنمائى اور تعاون كرنا بھى جائز نہيں اور آپ نے ايسا كيا ہے، اس وقت آپ كے ليے واجب اور ضرورى يہ تھا كہ آپ اس شخص كو اس كام كا شرعى حكم بتائيں اور اسے نصيحت كرنے كے ساتھ ساتھ توبہ كا بھى كہيں، اگر تو وہ آپ كى بات تسليم كر لے تو بہتر، اور اگر وہ تسليم نہ كرے تو آپ نے اپنا فرض ادا كر ديا.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو سيدھى راہ كى توفيق نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب