جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

مرنے كے بعد ميت كو جلانا جائز نہيں

9089

تاریخ اشاعت : 09-05-2006

مشاہدات : 4997

سوال

ميں نے ابھى حال ہى ميں اسلام قبول كيا ہے، ہمارے ہاں خاندان ميں يہ عادت ہے كہ وہ موت كے بعد ميت كى لاش كو جلا ديتے ہيں، اور ميں بھى ہميشہ يہى تصور كيا كرتا تھا كہ يہ زمين كا ماحول محفوظ ركھنے كے ليے يہى طريقہ سب سے افضل ہے جو بالفعل ممكن بھى ہے.
كيا آپ مجھے يہ بتا سكتے ہيں كہ كيا اسلام ميں يہ مباح ہے يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

يہ جاننا ضرورى ہے كہ اسلام كى تعليمات اور قوانين انسانيت كى عزت و تكريم كے ليے آئے ہيں.

فرمان بارى تعالى ہے:

اور البتہ تحقيق ہم نے اولاد آدم كو عزت و تكريم بخشى. الاسراء ( 70 ).

اور جب ہم تك ہمارے رب كى شريعت پہنچانے والے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم خود ہيں تو انہوں نے ہميں ہمارے فوت شدگان كے متعلق بھى وہ تعليمات بتاديں جو ہمارے رب نے مشروع كى تھيں، اور ان كے متعلق جو كچھ جائز تھا اور جو جائز نہيں وہ بھى ہم تك پہنچا ديا، اور اسى ليے دين اسلام سارى امتوں كے طريقوں كے خلاف طريقہ لايا، جو ميت اور اس كے معاملات كے ساتھ احسان پر مشتمل تھا اور جس ميں اس كے ليے فائدہ ہى فائدہ ہے.

شريعت اسلاميہ نے ہمارے ليے مشروع كيا ہے كہ جب مسلمان شخص فوت ہو جائے تو ہم اسے غسل ديں اور اسے ميل كچيل وغيرہ سے صاف كريں اور اس كے بعد سفيد كپڑوں ميں اسے كفن ديں، اور اس كى نماز جنازہ ادا كريں اور اس كے ليے رحمت اور مغفرت كى دعا كريں، اور پھر اس كے بعد ہم پر واجب كيا كہ ہم اسے دفن كريں اور مٹى ميں چھپا ديں، اور بعد ميں قبروں كى زيارت كريں اورمسلمانوں كے ليے دعا كريں.

اسلام ميں مشروع نہيں كہ ميت كو جلا كر راكھ كر ديا جائے، بلكہ ايسا كرنا تو ميت كى توہين ہے اور اس كى عزت و تكريم كو گھٹانا ہے، بلكہ اسلام نے تو ميت كى قبر پر بيٹھنا، اور اسے روندھنا اور اس پر چلنا بھى حرام قرار ديا ہے، تو پھر اسے جلانا كيسا ہوا!!

بلكہ دين اسلام ميں تو غير مسلموں كو بھى دفن كرنا مشروع ہے، اور مسلمان اپنے ملك ميں مرنے والے كفار كے ساتھ ايسا ہى كرتے ہيں، ليكن صرف اتنا ہے كہ كفار كو مسلمانوں كے ساتھ ايك جگہ ميں دفن نہيں كيا جائےگا، اور ہو سكتا ہے بعض كفار يوم آخرت پر ايمان نہ ركھنے كى بنا پر اپنے فوت شدگان كى ميت كو جلاتے ہوں، اور اسى ليے ميت كو جلانا جائز نہيں بلكہ ميت كو دفن كرنا واجب ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد