اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

جديد قسم كے ترانے اور جائز اشعار كى شروط

91142

تاریخ اشاعت : 28-12-2007

مشاہدات : 15135

سوال

كيا تصاوير اور ويڈيو پر مبنى ترانے اور اشعار جائز ہيں، اور كيا يہ كفار كے گانوں سے مشابہ نہيں ؟
اور كيا ويڈيو اور بے پرد عورتوں كا چہرہ اور ہاتھ اور پر فتن آواز ظاہر كرنا، اور داڑھى منڈے ہوئے مردوں كا ويڈيو ميں آنا جائز ہے ؟
ا سكا جواب دينے پر اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

آج كل كے اشعار اور ترانے و نظميں پہلى جيسے نہيں رہے، بلكہ اس ميں بہت تبديلى آ چكى ہے:

بہت افسوس ہے كہ اشعار اور اشعار پڑھنے والوں كى حالت يہاں تك پہنچ چكى ہے، پہلے تو اشعار و نظموں اورترانے ايمانى و جھادى يا علمى معانى اپنے اندر سموئے ہوتے تھے، ليكن اب ـ اكثر طور پر ـ تو يہ فاسق و فاجر قسم كے لوگوں كے گانوں سے مشابہ ہو چكے ہيں، كہ اس ميں آواز بہت زيادہ سريلى اور باريك استعمال كى جاتى ہے، اور پھر اشعار پڑھنے والى كى تصوير بھى كيسٹ كے اوپر لگى ہوتى ہے، اور اس كے ساتھ ويڈيو بھى بنائى جاتى ہے، جس ميں بہت سارى شرعى مخالفتيں پائى جاتى ہيں، مثلا عورتوں اور فاسق و فاجر قسم كے افراد كى موجودگى، اور پھر اس ميں موسيقى و مختلف قسم كے گانے بجانے كے آلات استعمال كيے جاتے ہيں.

اور سب سے بہتر اسے شمار كيا جاتا ہے جو اپنى آواز ميں موسيقى والا لہجہ اور اس ميں موسيقى بھى استعمال كرے، اور يہ اشعار كسى بھى معانى كو شامل نہيں، بلكہ آج تو وہ اشعار و ترانے تلاش كيے جاتے ہيں جس ميں سريلى آواز اور لب و لہجہ موسيقى و گانے والا ہو، وگرنہ مجھے ذرا يہ تو بتائيں كہ كس طرح انگلش ميں اشعار كہے جاتے ہيں، اور اسے سننے والے اس كے گرد جھومتے ہيں، ليكن انہيں اس ميں ا سكا ايك حرف بھى سمجھ نہيں آتا ؟!

اس وقت تو يہ اشعار و نظميں دوسرى علمى اور مفيد جائز اشياء پر چھا چكے ہيں، اور خاص كر لوگ قرآن مجيد كى تلاوت كو چھوڑ كر ترانے اور نظميں سننے كى كوشش كرتے ہيں، اور اسلامى دنيا ميں اس وقت يہ چيز بہت عام ہو چكى ہے، اور ان نظموں و ترانوں كو ريكارڈ كروانے والى ٹيموں كى ايك ہى لباس ميں تصاوير اخبارات اور ميگزين ميں نشر كرنے ميں ذرا بھر تردد نہيں كيا جاتا، كہ ان افراد كے چہروں سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت اور طريقہ كى كئى طرح سے مخالفت ٹپك رہى ہوتى ہے، كہ انہوں نے داڑھياں منڈوا ركھى ہوتى ہيں.

ليكن اس سے بھى افسوس اس بات پر ہے كہ جنہيں اللہ تعالى نے بہت اچھى اواز جيسى نعمت سے نوازا تھا اور وہ قرآن مجيد كو بڑے سوز كے ساتھ تلاوت كرتے تھے وہ بھى ان اشعار كے پيچھے بھاگ كھڑے ہوئے ہيں، اللہ نے انہيں خشوع و خضوع سے تلاوت كرنے كا ملكہ عنائت كيا تھا جس سے دلوں ميں خوف الہى پيدا ہو جاتا تھا، اور دل غمزدہ ہو كر آنكھوں سے آنسو بہہ نكلتے تھے، تو انہوں نے ان نظموں اور ترانوں كے پيچھے پڑھ كر معيوب قسم كى كسيٹيں ريكارڈ كروائى ہيں، جو ان كے شايان شان اور مقام و مرتبہ كے خلاف ہيں، ان ميں كوئى ايك شخص داڑھى منڈے فاسق و فاجر افراد كے ساتھ مل كر ريكارڈنگ كرواتا ہے، بلكہ كہيں تو ويڈيو ميں تو كسى عورت كى تصوير كے ساتھ شعر ظاہر ہوتے ہيں، اور اس ميں اشعار پڑھنے والے كے چہرہ پر كيمرا فٹ كر كے اسے اور قريب كر كے دكھايا جاتا ہے، جس ميں وہ بڑى خوبصورت و جميل صورت ميں پيش كيا جاتا ہے، جس ميں وہ گانے والوں كى نظروں جيسى نظر كر كے ديكھتا ہے جو شہوت انگيزى سے بھرپور ہوتى ہے.

ہم اس ميں كوئى مبالغہ نہيں كر رہے، اور نہ ہى بغير واقعہ كے كوئى بات كر رہے ہيں، بلكہ فى الواقع ايسا ہى ہے، ان اشعار گانے والوں نے اپنى جو تصاوير اور موبائل نمبر تك نشر كر ركھے، انہيں علم ہے كہ عورتيں ان كى بنا پر فتنہ ميں پڑى ہوئى ہيں، اور انہيں يہ بھى علم ہے كہ ا نكى حركات و سكنات اور ا نكى نظريں،اور ا نكى تصاوير نے بشر انسانى كى اس صنف نازك كے ساتھ كيا كچھ كر كے ركھ ديا ہے، اور افسوس ہے كہ ان تصوير والى نظموں اور ترانوں ميں كمى كى بجائے، دن بدن اضافہ ہو رہا ہے.

اسى ليے كچھ جليل القدر علماء كرام جنہوں نے ابتدا ميں ان نظموں اور ترانوں اور اشعار كو مباح كہا تھا، ان نظموں اور انہيں ريكارڈ كروانے والوں كے حالات كا علم ہوا تو يہ چي زانہيں بہت ہى برى لگى، ـ يہ تو ويڈيو سے قبل كى بات ہے ـ تو ان علماء كرام نے اپنے اس مباح قول سے توقف كرتے ہوئے رجوع كر ليا، يا پھر اس كے جواز و مباح كے ليے شروط كر دى ہيں، ان جليل القدر علماء كرام ميں محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ شامل ہيں.

1 - شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" ميرى رائے يہ ہے كہ اسلامى نظميں اور اشعار و ترانے پہلے سے بہت بدل چكے ہيں، اور اپنے حالت ميں نہيں رہے، پہلے تو پرفتن آواز ميں نہيں تھے، ليكن اب تو ان پرفتن آوازوں ميں سامنے آ رہے ہيں كہ الامان و الحفيظ، اور فاسد و خبيث قسم كے نغموں پر گائے جانے لگے ہيں، كہتے ہيں كہ اس ميں دف بجائى جاتى ہے، يہ سب كچھ ا سكا متقاضى ہے كہ انسان ان سے دور رہے، اور اجتناب كرے.

ليكن اگر ہمارے پاس كوئى ايسا شخص آئے تو يہ نظميں اور ترانے كسى ہدف كى بنا پر پڑھتا ہو، اور اس ميں كوئى خراب و لئيم امور نہ ہوں، اور بغير كسى موسيقى اور گانے بجانے كے صرف اكيلے اسى كى آواز ميں ہوں، تو اس ميں كوئى حرج نہيں.

حسان بن ثابت رضى اللہ تعالى عنہ بھى مسجد نبوى صلى اللہ عليہ وسلم ميں اشعار پڑھا كرتے تھے "

ديكھيں: دروس و فتاوى الحرم المدنى سوال نمبر ( 18 ) سال ( 1416 ) ہجرى.

2 - اور رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:

" اسلامى اشعار ( ترانے اور نظميں ) كے متعلق كلام بہت زيادہ بڑھ گئى ہے، اور ميں نے انہيں ( اشعار و ترانے ) بہت مدت سے نہيں سنا، جب يہ ابتدا ميں سامنے آئے تو ان ميں كوئى حرج نہيں تھا، نہ تو اس ميں دف كا استعمال ہوتا تھا، كہ اس سے فتنہ و فساد كا ڈر ہو، اور نہ ہى يہ حرام گانوں كى طرز و لہجہ ميں پڑھے جاتے تھے.

ليكن اب اس ميں جدت اور اور ترقى ہو چكى ہے، اور اس ميں آواز ہوتى ہے، ہو سكتا ہے يہ دف كى آواز ہو، اور يہ بھى ممكن ہے كہ دف نہ ہو بلكہ كسى اور چيز كى آواز ہو، اور اسى طرح اس ميں ترقى اور تطور كے بعد اب ايسى آواز كو اختيار كيا جاتا ہے جو خوبصورت اور پرفتن ہو.

پھر اس ميں يہ جدت بھى آ چكى ہے كہ اب تو يہ اشعار ( ترانے ) حرام گانوں كے لہجہ و طريقہ پر گائے جانے لگے ہيں، اس ليے اس كے متعلق دل ميں كچھ پريشانى سى پيدا ہو گئى ہے، كسى انسان كے ليے ممكن نہيں كہ وہ ہر حال ميں اس كے جائز ہونے كا فتوى جارى كرے، اور نہ ہى يہ فتوى دينا ممكن ہے كہ ہر حال ميں يہ ممنوع ہيں.

ليكن اگر ان امور سے جن كا ميں نے اوپر اشارہ كيا ہے يہ خالى ہوں تو يہ جائز ہيں، ليكن اگر اس ميں دف بجائى جائے، يا پھر اس كے ليے پرفتن اور خوبصورت آواز اختيار كى جائے، يا يہ گرے پڑے اور غلط قسم كے گانوں كى طرز اور لہجہ و طريقہ پر گائے جائيں تو ان كا سننا جائز نہيں ".

ديكھيں: الصحوۃ الاسلاميۃ صفحہ نمبر ( 185 ).

3 - اور شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:

" اور جسے آپ اسلامى اشعار ( ترانے اور نظميں ) كا نام ديتے ہيں انہيں ان كے استحقاق سے بھى زيادہ وقت اور جھد و كوشش، اور تنظيم دى گئى ہے، حتى كہ وہ اس وقت ايك فن كى شكل اختيار كر چكے ہيں، اور اس نے تدريسى منہج اور سكول كى نشاط بن چكا ہے، اور ريكارڈنگ كمپنيوں والے بہت ہى زيادہ تعداد ميں اسے فروخت كر رہے ہيں، حتى كہ اب تو گھروں ميں اكثر كيسٹيں اسى چيز كى نظر آتى ہيں،اور بہت سے نوجوان لڑكے لڑكياں اسى كو سننے ميں مشغول ہيں، جس سے وہ اپنا اكثر وقت ضائع كر ديتے ہيں، اور قرآن مجيد كى كسيٹ چھوڑ كر وہ ا نكى سماعت كرنے لگے ہيں، اور اس نے سنت نبويہ، اور تقارير و علمى دروس و ليكچر كى جگہ لے لى ہے.

ديكھيں: البيان لاخطاء بعض الكتاب صفحہ نمبر ( 342 ).

4 - اور شيخ البانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" مجھے اچھى طرح ياد ہے كہ جب ميں دو برس قبل دمشق ميں تھا ـ يہاں عمان آنے سے قبل ـ كچھ مسلمان نوجوانوں نے اچھى معانى پر مبنى اشعار پڑھنے شروع كيے، اور اس ميں ا نكى غرض و غايت اور مقصد صوفيوں كى مخالفت تھى، كہ بوصيرى وغيرہ كے قصيدہ پڑھتے ہيں، اور ايك كيسٹ ميں بھى يہ ريكارڈ كيے گئے، كچھ دير ہى گزرى كہ اس كے ساتھ دف بجانى بھى شامل كر لى گئى؛ اور پھر اسے شادى كى تقريبات ميں اس بنا پر پہلى بار استعمال كيا كہ شادى بياہ كى تقريبات ميں دف بجانى جائز ہے.

پھر يہ كيسٹ لوگوں ميں عامل ہو گئى، اور اس كى كئى ايك كاپياں كر لي گئيں، اور گھروں ميں بھى ا سكا استعمال ہونے لگا، اور دن رات تقريبات اور بغيرتقريبات كے يہ كيسٹ سنى جانے لگى، اور ا نكى تسلى و تشفى بن گئى؛ ا سكا سبب صرف يہ تھا كہ شيطان كى چالوں ہتھكنڈوں كى بنا پر جہالت اور شہوت غالب آگئى، جس نے انہيں قرآن مجيد كو پڑھنا تو دركنار اس كے اہتمام اور تلاوت سننے سے ہٹا ديا، اور قرآن مجيد ان كے ہاں بالكل مہجور بن گيا جيسا كہ درج ذيل آيت ميں ہے:

اور رسول كہينگے: اے پروردگار ميرى قوم نے اس قرآن مجيد كو چھوڑ ركھا تھا الفرقان ( 30 ).

ديكھيں: تحريم آلات الطرب صفحہ ( 182 - 183 ).

افسوس تو اس پر ہے كہ كچھ فتوى صادر كرنے والے تو يہ بھى فتوى ديتے پھر رہے ہيں كہ بالغ لڑكياں بھى مردوں كے سامنے اشعار گا سكتى ہيں، بلكہ فضائى چينلوں ميں آلات موسيقى جنہيں شريعت نے حرام كيا ہے كے ساتھ لاكھوں افراد كے سامنے اشعارگانا يہ مفتى جائز قرار دے رہا ہے.

دوم:

جائز اشعار كے اصول و ضوابط اور شروط:

علماء كرام اور مشائخ كى كلام پر غور و فكر اور تدبر كے بعد ان اصول و ضوابط اور شروط كو جمع كرنا ممكن ہے تا كہ اشعار جائز بن سكيں، وہ اصول و ضوابط اور شروط درج ذيل ہيں:

1 - مخرب الاخلاق اور حرام كلام سے اشعار خالى ہوں.

2 - ان اشعار و اور ترانوں ميں آلات موسيقى استعمال نہ كيے گئے ہوں، اور دف بھى مخصوص حالات ميں صرف عورتوں كے ليے بجانى جائز ہے، آپ اس كى تفصيل سوال نمبر ( 20406 ) كے جواب ميں ديكھ سكتے ہيں.

3 - ان آوازوں سے خالى ہوں جو موسيقى كے آلات كى آواز كے مشابہ ہيں؛ كيونكہ ظاہر اور اثر معتبر ہے، اور حرام آلات كى نقل اتارنا جائز نہيں، خاص كر ا سكا فى نفسہ اثر برا ہے جسے حقيقى آلات پيدا كرتے ہيں.

4 - اشعار ( نظميں اور ترانے ) سننے والے كے ليے عادت نہ ہوں، اور وہ اپنا وقت اسى پر ضائع نہ كرتا پھرے، اور اسے دوسرى مستحب اور واجب اشياء پر فوقيت نہ دے، مثلا قرآن مجيد كى تلاوت اور دعوت الى اللہ.

5 - اشعار پڑھنے والى عورت نہ ہو كہ و ہ مردوں كے سامنے اشعار پڑھے، اور نہ ہى نظميں اور ترانے پڑھنے والا مرد پرفتن شكل اور آواز ميں عورتوں كے سامنے اشعار پڑھے.

6 - رقيق اور باريك آواز سننے سے اجتناب كيا جائے، اور اس آواز كو بھى جو لہك لہك كر اور اپنے جسم كو گھما اور لہكا كر پڑھى گئى ہو اسے بھى نہ سنا جائے، كيونكہ اس ميں فتنہ اور فاسق قسم كے افراد كے مشابہت ہے.

7 - كيسٹوں پر موجود تصاوير سے اجتناب كيا جائے، اور اس سے بہتر يہ ہے كہ ويڈيو ميں ترانے اور اشعار سے اجتناب كيا جائے، اور خاص كر جب گانے والے كى كچھ حركات و سكنات شہوت انگيزى كا باعث بنتى ہو، اور فاسق گانے والوں كى مشابہت ہوتى ہو.

8 - اشعار پڑھنے كا مقصد صرف كلمات ہوں، نہ كہ لحن و طرب و گانا اور جھومنا.

ذيل ميں ہم اہل علم كا كلام پيش كرتے ہيں جو مندرجہ بالا اصول و ضوابط اور شروط پر مشتمل ہے:

1 - شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اجمالا يہ بات دينى ضرورت كے تحت معلوم ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى امت كے صالحين و عبادت گزار، اور زاہد افراد كے ليے مشروع نہيں كيا كہ وہ تالياں، يا دف يا بانسرى وغيرہ بجا كر اشعار پڑھنے كے ليے جمع ہوں، اور اسى طرح يہ بھى كسى كے ليے مباح نہيں كہ وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى متابعت و فرمانبردارى سے باہر نكلے، اور كتاب و سنت كى پيروى نہ كرے، نہ تو باطنى امر ميں، اور نہ ہى ظاہرى امر ميں، اور نہ ہى كسى عام شخص كے ليے، اور نہ ہى كسى خاص كے ليے.

ليكن شادى بياہ كے موقع پر كچھ كھيل كود نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مباح كيا ہے، جس طرح كہ عورتوں كے شادى بياہ كے موقع پر دف بجانے كى رخصت فرمائى ہے.

ليكن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور اور عہد مبارك ميں كسى بھى مرد نے دف نہيں بجائى، اور نہ ہى تالى بجائى، بلكہ صحيح حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان تو يہ ہے كہ:

" تالى بجانا عورتوں كے ليے ہے، اور سبحان اللہ كہنا مردوں كے ليے "

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عورتوں ميں سے مردوں كے ساتھ اور مردوں ميں سے عورتوں كے ساتھ مشابہت كرنے والوں پر لعنت فرمائى"

اور جب گانا اور دف بجانا اور تالى بجانا عورتوں كا كام تھا: تو سلف رحمہ اللہ ايسا كرنے والے مرد كو مخنث اور ہيجڑا كہتے تھے، اور گانے والے مردوں كو ہيجڑا كہتے، اور يہ ا نكى كلام ميں مشہور ہے " انتہى.

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 11 / 565 - 566 ).

2 - اور شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اسلامى اشعار ( ترانے اور نظميں ) مختلف ہيں، اگر تو سليم اور صحيح ہوں، اور اس ميں خير و بھلائى كى دعوت دى گئى، اور بھلائى كے كاموں، اور اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى كى ياد دہانى كرائى گئى ہو، اور دشمنوں سے اپنى سرزمين اور وطن كے حفاظت كى دعوت ہو، اور دشمنان اسلام كے خلاف تيارى وغيرہ پر مشتمل ہو، تو اسميں كوئى حرج نہيں.

ليكن اگر اس ميں ان اشياء كے علاوہ معاصى و گناہ، اور مرد و عورت كا اختلاط ہو، يا بےپردگى اور ستر ننگے ہوں، يا كوئى بھى خرابى ہو تو ان كا سننا جائز نہيں " انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 3 / 437 ).

3 - شيخ ابن باز رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:

" اگر اسلامى اشعار ( يعنى ترانے اور نظميں ) سليم ہوں تو يہ سليم اور صحيح ہيں، اور اگر اس ميں كوئى منكر و برائى ہو تو يہ منكر ہے....

حاصل يہ ہوا كہ: مطلقا اس ميں كچھ كہنا صحيح نہيں، بلكہ ديكھا جائيگا كہ اگر اشعار صحيح اور سليم ہوں، تو ان ميں كوئى حرج نہيں، اور جن اشعار و ترانوں ميں منكر و برائى، يا برائى كى دعوت دى گئى ہو تو يہ منكر شمار ہو گى " انتہى.

ماخوذ از: كيسٹ سوال و جواب الجامع الكبير كيسٹ نمبر الف ( 90 ).

4 - اور مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:

آپ كے ليے ان گانوں كے بدلے اسلامى نظميں اور ترانے لينا جائز ہے، جس ميں وعظ و حكمت اور عبرت پر مشتمل اشعار ہوں جو دينى غيرت بيدار كريں، اور اسلامى خيالات كو مہيز ديں، اور شر و برائى اور برائى كے اسباب كو دور بھگائيں، تا كہ اسے سننے اور پڑھنے والا نفس اللہ كى اطاعت و فرمانبردارى كى طرف لگے، اور اللہ تعالى كى معصيت و نافرمانى، اور حدود اللہ سے تجاوز كرنے كى نفرت دلا كر شرعى حمايت ميں لے آئے، اور جھاد فى سبيل اللہ كى طرف لے كر جائے، ليكن اسے اس كى عادت ہى نہيں بنا لينى چاہيے كہ وہ يہى سنتا اور گنگناتا رہے، بلكہ كبھى كبھار اور مختلف مواقع اور مناسبت، اور اسباب مثلا شادى بياہ يا جھادى سفر كے ليے ايسا كرے، اور جب دل نيكى اور بھلائى كے كاموں ميں سستى و كاہلى كرنے لگے ت واسے ابھارنے كے ليے سنے، اور جب دل برائى كى طرف جانے لگے تو بھى ان سے مدد حاصل كرے، تا كہ وہ برائى سے باز آ كر برائى سے نفرت كرنے لگے " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 533 ).

ہم نے پورا فتوى سوال نمبر ( 47996 ) اور ( 67925 ) كے جوابات ميں نقل كر چكے ہيں، آپ ان سوالات كا مطالعہ كريں.

5 - اور شيخ البانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" بلكہ ان ( نظموں اور ترانوں ) ميں ايك اور آفت و برائى يہ بھى ہے كہ مخرب الاخلاق اور گرى ہوئى كلام پر مشتمل گانوں كى طرز اور لہجہ ميں يہ اشعار گائے جائيں، اور يہ ترانے مشرقى اور يورپى موسيقى كے قوانين و اصول و ضوابط پر كہے گئے ہوں جس سے سامعين رقص و سرور كرنے لگيں، اور انہيں اپنى طبيعت سے خارج كر ديں، تو اس كا مقصد رقص و گانا اور سر لگانا ہے، نہ كہ ذاتى طور پر اشعار، اور يہ ايك نئى مخالفت ہے، جو كہ كفار كے ساتھ مشابہ ہے.

جس كےنتيجہ ميں ايك اور مخالفت پيدا ہوتى ہے وہ يہ كہ قرآن مجيد سے اعراض كرنے، اور اسے چھوڑنے ميں ا نكى مشابہت پائى جاتى ہے، تو يہ سب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس شكوى ميں شامل ہونگے، جيسا كہ درج ذيل فرمان ميں شكوى نبوى بيان كيا گيا ہے:

اور رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كہينگے كہ ميرى قوم نے اس قرآن مجيد كو چھوڑ ديا تھا انتہى.

ديكھيں: تحريم آلات الطرب ( 181 ).

6 - اور شيخ البانى رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:

" اگر تو يہ اشعار ( ترانے اور نظميں ) اسلامى معانى و مقاصد پر مشتمل ہوں، اور اس ميں گانے بجانے كے آلات دف ڈھول وغيرہ شامل نہ ہو، اور موسيقى كى دھنيں نہ پائى جائيں تو اس ميں كوئى حرج نہيں.

ليكن اس كے جواز كے ليے ايك اہم ترين شرط بيان كرنا ضرورى ہے: يہ اشعار و نظميں شرعى مخالفات مثلا غلو وغيرہ سے خالى ہوں، پھر يہاں ايك اور شرط يہ ہے كہ: اسے اس كى عادت نہيں بنا لينى چاہيے؛ كيونكہ عادت بنا لينا اسے قرآن مجيد كى تلاوت سے دور كر ديگى، جس كے متعلق سنت نبويہ ميں ابھارا گيا ہے، اور اسى طرح اسے شرعى اور مفيد علم كے حصول سے بھى دور كر دےگى، اور دعوت الى اللہ سے بھى دور لے جائيگى " انتہى.

ديكھيں: مجلۃ الاصالۃ عدد نمبر ( 2 ) تاريخ 15 جمادى الثاني ( 1413 ) ہجرى.

7 - سوال نمبر ( 11563 ) كے جواب ميں كچھ اصوال و ضوابط بيان ہو چكے ہيں، جنہيں ہم يہاں بھى فائدہ كے ليے بيان كر رہے ہيں، ليكن ان كے علاوہ بھى اصول و ضوابط ہيں جن كا اس معاملہ ميں خيال ركھنا ضرورى ہے:

ـ گانے بجانے كے حرام كردہ آلات نظموں اور ترانوں ميں استعمال نہ كيے جائيں.

ـ اتنى كثرت سے نہ سنے جائيں كہ مسلمان كى عادت ہى بن جائے كہ وہ ہر وقت اسى ميں لگا رہے، اور اس كى بنا پر فرائض و واجبات ہى ضائع كر بيٹھے.

ـ فاسق و گانے بجانے والوں كے لہجہ و طرز سے مشابہت نہ ہو.

ـ ايسى آوازوں سے خالى ہو جس سے گانے بجانے كے آلات جيسى آواز پيدا ہو.

ايسا سوز نہ ہو كہ اس سے سننے والا جھومنے لگے، اور اسے فتنہ ميں ڈال دے، جس طرح گانے سننے والے كرتے ہيں، اور آج كل اكثر نظميں اور ترانے اسى طرز پر سامنے آ رہے ہيں، حتى كہ طرز اور پرسوز آواز سے لذت ميں ڈوب كر سامع ان ميں جو معانى پائے جاتے ہيں ا نكى طرف دھيان ہى نہيں ديتا.

ہم اپنے نظميں اور ترانے پڑھنے والے مسلمان بھائيوں كو اس پر چوكنا رہنے كا كہتے ہيں كہ كہيں وہ نوجوان لڑكے اور لڑكيوں كے فتنے كا سبب نہ بن جائيں، اور اللہ تعالى كى اطاعت فرمانبردارى سے ان كے منہ موڑنے كا باعث نہ بن جائيں.

اور انہيں ا سكا علم ہے كہ ا نكى شكل و صورت كا لڑكے اور لڑكيوں پر كتنا برا اثر ہے، اور ان مجالس كا دورہ كرنے سے آپ كو عجيب طرح كى اشياء حاصل ہونگى، آپ ديكھينگے كہ كوئى لڑكى نظميں اور ترانے و اشعار پڑھنے والے سے عشق كر رہى ہے، اور ديكھينگے كہ جب تك وہ فلان شخص كى آواز نہ سن لے اسے نيند ہى نہيں آتى.

اور كسى كو آپ ديكھيں گے كہ اس نے اپنا نام ہى فلان ـ اشعار پڑھنے والے كى ـ كى عاشقہ ركھ ليا ہے، اور مرد و عورتوں كو ان اشعار پڑھنے والوں كى تعظيم و توقير كرتے ہوئے پائينگے، چنانچہ وہ انہيں اونچے اونچے لقب اور مرتبوں سے نوازيں گے.

حالانكہ ان ميں سے كچھ تو بالكل ہى دين پر عمل نہيں كرتے، اور بعض تو بے حياء قسم كے گانوں ميں گرے ہوئے ہيں، اور آڈيو ويب سائٹ وغيرہ ميں ديكھيں تو آپ كو عجب العجائب ملينگے، وہ يہ كہ ان نظموں اور ترانوں كو لوڈ كرنے، اور سننے ميں غلو ہے، اور قرآن مجيد اور علمى تقارير كو سننے سے اعراض برتتا جا رہا ہے.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ سب مسلمانوں كے حالات كى اصلاح فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب