سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

دلہا كے ليے حالت جنابت ميں مباركباد دينے والوں كا استقبال كرنا جائز ہے

91391

تاریخ اشاعت : 17-03-2012

مشاہدات : 6853

سوال

ہمارے علاقے ميں سہاگ رات ميں دخول كے بعد دلہن كا انتظار كرتے ہيں تا كہ اسے بركت كى دعا ديں، اور اس كے ساتھ بيٹھتے ہيں، اور اسى طرح مرد حضرات بھى دولہا كے ساتھ بيٹھتے ہيں، اور غسل جنابت سے قبل باہر آتے ہيں، كيا ايسا كرنا جائز ہے، يا كہ انہيں مباركباد دينے والوں كا استقبال كرنے سے قبل غسل جنابت كرنا واجب ہے.
معاملہ يہ ہے كہ انہيں تيار ہونے كے ليے بہت وقت لگتا ہے، اور خاص كر دلہن كے ليے، اس سلسلہ ميں آپ كى كيا رائے ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جنبى شخص كا مباركباد دينے والوں كے استقبال كے ليے باہر آنے اور ان كے ساتھ بيٹھنے ميں كوئى حرج نہيں، اس كى دليل بخارى اور مسلم كى درج ذيل حديث ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ مدينہ كے ايك راستہ ميں انہيں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم مل گئے اور ميں جنبى حالت ميں تھا، لہذا ميں وہاں سے كھسك گيا اور جا كر غسل جنابت كيا تو پھر واپس آيا، چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دريافت كيا:

ابو ہريرہ تم كہاں تھے تو ميں نے عرض كيا: ميں جنبى تھا اس ليے ميں نے آپ كے ساتھ بيٹھنا ناپسند كيا كہ آپ كے ساتھ حالت جنابت ميں بيٹھوں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" سبحان اللہ بلاشبہ مسلمان شخص نجس نہيں ہوتا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 283 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 372 ).

ليكن اس كے ليے افضل اور بہتر ہے كہ وہ وضوء كر لے كيونكہ امام مسلم رحمہ اللہ نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے روايت كي ہے كہ:

" جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم جنبى ہوتے اور كھانا تناول كرنا چاہتے يا سونا چاہتے تو نماز جيسا وضوء كر ليتے تھے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 305 ).

اور اس ليے بھى كہ فرشتے جنبى شخص كے قريب نہيں آتے، جيسا كہ حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے:

" تين شخص ايسے ہيں جن كے قريب فرشتے نہيں آتے كافر كى لاش، اور خلوق خوشبو ميں لتھڑا ہوا شخص، اور جنبى جب تك وضوء نہ كر لے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4180 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود حديث نمبر ( 3522 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

خلوق خوشبو سے لتھڑا ہوا شخص: يعنى وہ شخص جس نے ايسى خوشبو استعمال كر ركھى ہو جس ميں زعفران ملا ہوا ہوتا ہے، كيونكہ اس ميں رعونت اور عورتوں سے مشابہت ہوتى ہے "

ديكھيں: فيض القدير ( 3 / 325 ).

مزيد آپ سوال نمبر ( 6533 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

ليكن يہ ہے كہ اس طرح كى قديم اور پرانى عادات كے بارہ ميں لوگو كى راہنمائى كرنى چاہيے اور انہيں اسے چھوڑنے كا عادى بنا جائے كہ وہ اس سے چھٹكارا اور خلاصى حاصل كريں اس طرح كے عمدا اجتماع ميں دولہا اور دلہن كى شرم و حياء كو ٹھيس پہنچتى ہے.

بلكہ اس سے بڑھ كر اس طرح كى حالت ميں نفسياتى بوجھ سا پڑتا ہے: كہ آدمى اور اس كى بيوى محسوس كرتے ہيں كہ رشتہ دار اور لوگ اس انتظار ميں ہيں كہ وہ اپنے اس كام سے فارغ ہوں تا كہ لوگ انہيں مباركباد ديں؟!!

كيونكہ مباركباد دينے كا وقت اتنا تنگ نہيں كہ ضرور اسى حرج والے وقت ميں مباركباد دى جائے؛ كيونكہ يہ مباركباد تو رخصتى كے وقت بھى دى جا سكتى ہے، اور يا پھر وليمہ ميں يا سہاگ رات كے بعد، يا كسى دوسرے وقت، بلكہ اس وقت كو عمدا مقرر كرنے كى كوئى وجہ سمجھ ميں نہيں آتى كہ خاوند اور بيوى كو اس بوسيدہ قديم عادت كے مطابق ہى مباركباد دى جائے، جس كى شريعت اسلاميہ ميں كوئى دليل تك نہيں ملتى، اور عقل سليم ميں بھى اس كى كوئى وجہ نہيں يا پھر محاسن اور آداب و اخلاق بھى اس طرح كى عادت سمجھنے سے قاصر ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب