اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

بيوى كا نقاب اتارنے ميں والدين كى اطاعت نہ كرنا

9155

تاریخ اشاعت : 16-01-2008

مشاہدات : 6771

سوال

اگر والدين اپنى بہو كو نقاب نہ پہننے ديں تو كيا بيٹے كے ليے والدين كى نافرمانى كرتے ہوئے اپنى بيوى كو نقاب اور پردہ كرانا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

خاوند پر واجب ہے كہ وہ بيوى كو شرعى پردہ كروائے، اور اس كے چہرے كا بھى پردہ كرائے، كتاب و سنت كے دلائل سے ثابت ہے كہ عورت پر چہرے كا پردہ كرنا واجب ہے، ان دلائل ميں درج ذيل فرمان بارى تعالى بھى شامل ہے:

اے نبى صلى اللہ عليہ وسلم آپ اپنى بيويوں اور اپنى بيٹيوں اور مومنوں كى عورتوں سے كہہ ديجئے كہ وہ اپنے اوپر اپنى چادر لٹكا ليا كريں، اس سے بہت جلد ا نكى شناخت ہو جايا كريگى پھر وہ ستائى نہ جائينگى، اور اللہ تعالى بخشنے والا مہربان ہے الاحزاب ( 59 ).

اور جلباب اس چادر اور اوڑھنى كو كہتے ہيں جو عورت اپنے سر كے اوپر سے اپنے چہرے پر لٹكاتى ہے.

اور اس ليے بھى كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور آپ مومن عورتوں كو كہہ ديجئے كہ وہ بھى اپنى نگاہيں نيچى ركھيں اور اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كريں، اور اپنى زينت كو ظاہر نہ كريں، سوائے اسكے جو ظاہر ہے، اوراپنے گريبانوں پر اپنى اوڑھنياں ڈالے رہيں، اور اپنى آرائش كو كسى كے سامنے ظاہر نہ كريں، سوائے اپنے خاوندوں كے، يا اپنے والد كے، يا اپنے سسر كے، يا اپنے بيٹوں كے، يا اپنے خاوند كے بيٹوں كے، يا اپنے بھائيوں كے، يا اپنے بھتيجوں كے، يا اپنے بھانجوں كے، يا اپنے ميل جول كى عورتوں كے، يا غلاموں كے، يا ايسے نوكر چاكر مردوں كے جو شہوت والے نہ ہوں، يا ايسے بچوں كے جو عورتوں كے پردے كى باتوں سے مطلع نہيں، اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار كر نہ چليں كہ انكى پوشيدہ زينت معلوم ہو جائے، اے مسلمانو! تم سب كے سب اللہ كى جانب توبہ كرو، تا كہ تم نجات پا جاؤ النور ( 31 ).

كيونكہ خوبصورتى و جمال كا مركز تو چہرہ ہے اس ليے وہ بھى ستر ميں شامل ہے اور ا سكا بھى پردہ كرنا ہوگا، اس ليے خاوند كو اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتے ہوئے اس معاملہ ميں اپنے والدين كى بات نہيں ماننى چاہيے، بلكہ وہ بيوى كو شرعى پردہ كروائے.

كيونكہ اللہ تعالى جو خالق حقيقى ہے كى مخالفت و معصيت ميں كسى بھى مخلوق كى اطاعت و فرمانبردارى نہيں، جيسا كہ حديث ميں بھى بيان ہوا ہے:

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اطاعت فرمانبردارى كرنا اس وقت تك حق ہے جب تك معصيت و نافرمانى كا حكم نہ ديا جائے، اور جب معصيت و نافرمانى كا حكم ديا جائے تو پھر نہ اس كى بات تسليم ہوگى، اور نہ ہى اطاعت ہے "

صحيح بخارى كتاب الجھاد و السير حديث نمبر ( 2735 ).

چنانچہ وہ اللہ سبحانہ و تعالى كو ناراض كر كے كس طرح اپنے والدين كو راضى كر سكتا ہے، اسے اللہ تعالى سے ڈرنا چاہيے، اور اس كے علم ميں رہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خاوند پر اس كے اہل وعيال كى ذمہ دارى ڈال ركھى ہے اور وہ ان كا ذمہ دار ہے.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" مرد اپنے گھر والوں كا ذمہ دار ہے، اور وہ ان كے متعلق جواب دہ ہے "

صحيح بخارى كتاب الجمعۃ حديث نمبر ( 844 ).

آپ كو اللہ تعالى كا شكر ادا كرنا چاہيے كہ اللہ تعالى نے اسے ايسى بيوى عطا فرمائى ہے جو شرعى پردہ كرنے پر راضى ہے.

اللہ تعالى ہم اور آپ كو ہر خير و بھلائى كے كام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.

مزيد تفصيل كے ليے آپ فتاوى المراۃ المسلۃ ( 1 / 443 - 444 ) كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد