الحمد للہ.
جب حائضہ عورت جنبى ہو جائے يعنى اسے احتلام ہو جائے، يا پھر جنابت كى حالت ميں حيض آ جائے تو اس كے غسل جنابت كرنا مشروع ہے، اس سے وہ قرآن مجيد بغير چھوئے تلاوت كرنے سے مستفيد ہو سكتى ہے، كيونكہ جنبى شخص كو قرآن مجيد كى تلاوت كرنا ممنوع ہے، ليكن حائضہ عورت بغير چھوئے تلاوت كر سكتى ہے.
اس كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 2564 ) اور سوال نمبر ( 60213 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
اس غسل كا طريقہ بھى باقى مشروع غسل كى طرح ہى ہے، چنانچہ وہ وضوء كے اعضاء پہلے دھوئے اور اپنے سر پر تين چلو پانى ڈال كر پھر اپنى دائيں اور پھر بائيں جانب پانى بہائے، اور پھر سارے بدن پر پانى ڈال لے.
تو اس طرح اس سے جنابت ختم ہو جائيگى، ليكن حيض باقى رہےگا.
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اور اگر عورت نے حالت حيض ميں غسل جنابت كيا تو اس كا غسل صحيح ہے، اور جنابت كا حكم زائل ہو جائيگا، امام احمد رحمہ اللہ نے يہى بيان كيا اور فرمايا ہے:
جنابت زائل ہو جائيگى، اور خون ختم ہونے تك حيض باقى رہےگا.
ان كا كہنا ہے: ميرے علم كے مطابق كسى كا بھى يہ قول نہيں كہ وہ غسل نہ كرے، صرف عطاء رحمہ اللہ سے مروى ہے كہ وہ غسل نہ كرے، اور ايك روايت ميں ان سے بھى مروى ہے كہ وہ غسل كرے " انتہى بتصرف
ديكھيں: مغنى ابن قدامہ ( 1 / 134 ).
واللہ اعلم .