سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

عورت كو بطور سيكرٹرى ركھنا

92978

تاریخ اشاعت : 04-09-2007

مشاہدات : 6313

سوال

ميرا سوال ہے كہ كيا عورت كسى كمپنى ميں بطور سيكرٹرى ملازمت كر سكتى ہے ؟
يہ علم ميں رہے كہ كمپنى كا آفس دو كمروں اور ايك استقباليہ پر مشتمل ہے، اور كمپنى كے مالكان دين اور اخلاق كے مالك ہيں، عورت كو بطور سيكرٹرى ركھنے كى دليل يہ پيش كرتے ہيں كہ اس وقت ہمارے ملك ميں يہ عادت بن چكى ہے، اس پر مستزاد يہ كہ وہ لڑكى ان امور اور كمپيوٹر كے معاملات ميں زيادہ ماہر ہے!! كيا اس سلسلہ ميں كمپنى كے مالكان كو گناہ ہو گا، اور كيا عورت كے ليے دينى امور كا خيال ركھتے ہوئے ملازمت كرنى جائز ہے ؟
اور كيا كمپنى والوں كے ليے صفائى كرنے كے ليے ملازمہ ركھنى جائز ہے، آپ سے گزارش ہے كہ دلائل كى روشنى ميں اس كى وضاحت فرمائيں، اور كيا خلوت اور اختلاط ميں كوئى فرق ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

عورت كے ليے كسى بھى ايسى جگہ پر ملازمت كرنى جائز نہيں جہاں مرد و زن كا اختلاط پايا جاتا ہو، كيونكہ اس سے بہت سارى خرابياں اور ممنوعہ كام پيدا ہوتے ہيں، مثلا خلوت، غير محرم كو ديكھنا، مصافحہ كرنا، اور وہاں كام كرنے والوں كے ساتھ دل كا لگاؤ، يا مالكان كے ساتھ، اس كے علاوہ بھى كئى ايسى خرابياں ہيں جو ہر كسى كو معلوم ہيں، مرد و زن سے مخلوط كام والى جگہ ان خرابيوں اور ممنوعہ كام سے خالى نہيں ہو سكتى.

سوال نمبر ( 1200 ) كے جواب ميں اختلاط كى حرمت كے دلائل بيان ہو چكے ہيں، آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں.

دوم:

كمپنى كے مالك وغيرہ كے ليے جائز نہيں كہ وہ كسى عورت كو ملازمت پر ركھے اور وہ عورت مردوں كے مابين كام كرے، چاہے وہ ملازمت سيكرٹرى كى ہو، يا صفائى وغيرہ كى؛ كيونكہ اس ميں حرام كردہ اختلاط ميں معاونت ہوتى ہے.

اور يہ بات كى سائل كے ملك ميں يہ عادت بن چكى ہے يہ ايسا سبب نہيں كہ شرعا اس سے يہ كام جائز ہو جاتا ہو، بلكہ اپنى عادات اور رواج كو شريعت مطہرہ كے احكام كے تابع كرنا چاہيے، اور اسے شريعت كے مطابق ضبط كرنا چاہيے.

اور يہ دعوى كہ عورت سيكرٹرى كے امور اور كمپيوٹر كے كام احسن انداز سے كر سكتى ہے، يہ دعوى صحيح نہيں، كيونكہ بہت سے مرد بھى اس كام كو بہت اچھى طرح كر سكتے ہيں، اور يہ معاملہ بہتر اختيار كى طرف راجع ہے، اور مرد ملازمت كا زيادہ حقدار ہے كيونكہ مرد ہى خاندان كا سربراہ اور ذمہ دار ہوتا ہے، اور اس كا خيال ركھتا ہے، اور شرعى طور پر بھى مرد ہى گھر كے اخراجات كا ذمہ دار ہے، اور عورت كے ليے اگر كوئى مباح اور جائز كام مل جائے جو ممنوعہ امور اور خرابيوں سے خالى ہو تو صحيح ہے وگرنہ اس كے ليے اس كا گھر زيادہ بہتر ہے.

سوم:

مرد و عورت كے مابين خلوت حرام ہے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" خبردار جو مرد بھى كسى عورت كے ساتھ خلوت كرتا ہے تو ان كے ساتھ تيسرا شيطان ہوتا ہے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 2165 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" كوئى بھى مرد كسى عورت كے ساتھ خلوت نہ كرے، اور كوئى بھى عورت محرم كے بغير سفر مت كرے "

تو ايك شخص كھڑا ہو كر عرض كرنے لگا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں نے تو فلاں غزوہ ميں نام لكھا ركھا ہے، اور ميرى بيوى حج پر جا رہى ہے .

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جاؤ اپنى بيوى كے ساتھ جا كر حج كرو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3006 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1341 ).

خلوت يہ ہے كہ: مرد و عورت كسى ايسى جگہ جمع ہوں جہاں كوئى دوسرا اس كى اطلاع نہ پا سكے.

اور اختلاط بعض اوقات تو بغير خلوت كے بھى ہو سكتا ہے، مثلا كئى ايك مردوں كا كئى ايك عورتوں كے ساتھ ايك ہى جگہ جمع ہونا، اور اس ميں حرام وہ ہے جس كى بنا پر مندرجہ بالا ممنوعہ كام اور خرابياں پيدا ہوں جيسا كہ غير محرم كو ديكھنا، اور چھونا، اور بات چيت ميں نرمى اختيار كرنا، اور دل كا كسى دوسرے سے معلق ہونا، اور جيسا كہ پہلے بيان بھى ہو چكا ہے كہ اختلاط والى ملازمت اس سے خالى نہيں ہو سكتى؛ كيونكہ زيادہ ملاقاتيں، اور زيادہ اور طويل وقت تك بيٹھنا تكلف كو ختم كر كے ركھ ديتا ہے، اور معاملہ ميں وسعت پيدا كرتا ہے، خاص كر جب جگہ تنگ ہو، اور اشخاص محدود ہوں، مثلا وہ حالت جو سوال ميں بيان ہوئى ہے تو يہاں ايك دوسرے سے تعارف اور دل كے معلق ہونے كى فرصت اور موقع بہت زيادہ اور قوى ہوگى !!

اور بعض اوقات اختلاط خلوت سے خالى ہوتا ہے، ليكن اس پر وعدہ كرنے ميں كوئى ممانعت نہيں ہوتى، اور اس پر بھى جو اس سے بھى بڑھ كر ہے.

اور اختلاط كى حرمت كے دلائل پر غور و فكر اور تدبر كرنے والا شخص اس دروازے كو بند كرنے كى شرعى حكمت جان لےگا، اور معاملہ دونوں جنسوں كى طبعيت كى معرفت اور ان كے قريب اور پڑوس ميں رہنے سے جو پيدا ہو گا،اس سے شريعت اسے بچانے كى حرص پر مبنى ہے.

مستفى فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" سكولوں وغيرہ ميں مرد و عورت كے مابين اختلاط بہت بڑى عظيم برائيوں، اور دين و دنيا كى بڑى خرابيوں ميں سے ہے، تو عورت كے ليے مرد و عورت سے اختلاط والى جگہ پر ملازمت كرنا ائز نہيں، اور نہ ہى عورت كے ولى كے ليے اس عورت كو اجازت دينا جائز ہے "

اللہ تعالى سب كو پسنديدہ اور رضا كے كام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب