جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

افطارى كى دعاء

سوال

درج ذيل دعاؤں كى احاديث جنہيں ضعيف كہا جاتا ہے ان دعاؤں كو پڑھنے كا حكم كيا ہے مثلا:
افطارى كے وقت: " اللهم لك صمت وعلى رزقك أفطرت "
اور " أشهد أن لا أله إلا الله أستغفر الله أسألك الجنة وأعوذ بك من النار " جيسى دعائيں پڑھنا جائز اور مشروع ہيں،يا مكروہ يا ناجائز، يا كہ حرام ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

آپ نے جو افطارى كى دعاء بيان كى ہے وہ ابو داود كى ايك ضعيف حديث ميں وارد ہے:

معاذ بن زھرۃ بيان كرتے ہيں كہ ان تك يہ پہنچا كہ جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم افطارى كرتے تو يہ دعاء پڑھتے:

" اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ " اے اللہ ميں نے تيرے ليے روزہ ركھا اور تيرے رزق پر ہى افطار كر رہا ہوں "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2358 ).

اور اس دعاء كى بجائے درج ذيل دعاء كفائت كرتى ہے جو صحيح حديث ميں وارد ہے.

" ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتْ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ " پياس چلى جائے اور رگيں تر ہو جائيں، اور ان شاء اللہ اجر مل جائيگا "

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم افطارى كيا كرتے تو يہ دعاء پڑھتے تھے:

" ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتْ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ " پياس چلى جائے اور رگيں تر ہو جائيں، اور ان شاء اللہ اجر مل جائيگا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2357 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

دوم:

روزہ دار كے ليے مستحب ہے كہ وہ روزہ كى حالت ميں جو چاہے دعاء مانگ سكتا ہے، اور اسى طرح افطارى كے وقت بھى، اس كى دليل مسند احمد كى درج ذيل حديث ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ہم نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے نبى صلى اللہ عليہ وسلم جب ہم آپ كو ديكھتے ہيں تو ہمارے دل نرم ہو جاتے ہيں، اور ان ميں رقت پيدا ہو جاتى ہے، اور ہم اہل آخرت ميں سے ہو جاتے ہيں، اور جب ہم آپ سے جدا ہوتے ہيں تو ہميں دنيا اچھى لگنے لگتى ہے، اور ہم اپنى عورتوں اور بچوں ميں مشغول ہو جاتے ہيں.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اگر تم ہر حال ميں اسى حالت پر رہو جو تمہارى حالت ميرے پاس ہوتى ہے تو تمہارے ساتھ فرشتے مصافحہ كريں، اور تمہارے گھروں ميں تمہارى زيارت كريں، اور اگر تم گناہ نہ كرو تو اللہ تعالى ايسى قوم لے آئيگا جو گناہ كرينگے تا كہ وہ انہيں بخش دے.

تو ہم نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہميں جنت كے متعلق تو بتائيں كہ اس كى عمارتيں كيسى ہيں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اس كى ايك اينٹ سونے اور ايك چاندى كى ہے، اور ا سكا لگانے كے ليے گارا تيز خوشبو والى كستورى كا تيار كردہ ہے، اور اس ميں جو كنكرياں بچھائى گئى ہيں وہ لولؤ اور ياقوت ہيں، اور اس كى مٹى زعفران كى ہے، جو بھى جنت ميں داخل ہو گا وہ نعمتوں ميں ہو گا اور اسے كوئى تكليف نہيں آئيگى، وہ ہميشہ رہے گا، اور اسے كبھى موت نہيں آئيگى، اور اس كا لباس بوسيدہ نہيں ہوگا، اور نہ ہى اس كى جوانى ختم ہو گى، تين شخص ايسے ہيں جن كى اللہ تعالى دعاء رد نہيں كرتا، ايك نيك و عادل امام و حكمران، اور روزہ دار حتى كہ افطارى كر لے، اور مظلوم كى دعاء كو اوپراٹھايا جاتا ہے حتى كہ اس كے ليے آسمان كے دروازے كھول ديے جاتے ہيں، اور اللہ عزوجل فرماتا ہے: مجھے ميرى عزت كى قسم ميں تيرى ضرور مدد كرونگا چاہے كچھ دير بعد "

مسند احمد حديث نمبر ( 8030 ) اس حديث كو شعيب ارناؤط نے مسند احمد كى تحقيق ميں صحيح قرار ديا ہے.

اور اسے امام ترمذى نے درج ذيل الفاظ ميں روايت كيا ہے:

" اور روزہ دار جب افطارى كرتا ہے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 2525 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

تو آپ اللہ تعالى سے جنت ميں جانے، اور جہنم كى آگ سے محفوظ رہنے كا سوال كر سكتے ہيں، اور اس كے علاوہ دوسرى مشروع دعائيں بھى كر سكتے ہيں، ليكن ان الفاظ ميں دعا صحيح حديث ميں مجھے تو نہيں ملى:

" أشهد أن لا أله إلا الله أستغفر الله أسألك الجنة وأعوذ بك من النار "

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب