الحمد للہ.
خاوند كا اپنى بيوى سے كہنا: " تم اولاد كے پاس ايك ماہ اپنے گھر آجاؤ جب حيض آئيگا اور طہر ميں آپ كو طلاق دے دونگا " اس سے طلاق واقع نہيں ہوتى، كيونكہ يہ تو طلاق دينے كا وعدہ ہے اس سے طلاق اس وقت تك نہيں ہوگى جب تك حيض كے بعد خاوند طلاق نہ دے.
ہو سكتا ہے انسان بيوى كو طلاق دينے كا عزم كرے اور پھر اسے ختم كر دے اور طلاق دينے كا عزم ختم كر دے، ہو سكتا ہے اسى ميں اس كے ليے اور اس كى اولاد كى بھلائى ہو.
واجب تو يہ ہے كہ خاوند اور بيوى آپس ميں حسن معاشرت اختيار كريں، اور خاوند كے ليے بيوى كو زدكوب كرنا جائز نہيں، ہاں جب بيوى نافرمانى كرے اور وعظ و نصيحت اور بستر سے عليحدہ ہونے پر بھى بيوى اطاعت نہ كرے تو پھر تھوڑى سى مار دينا جائز ہے، ليكن اس ميں بھى چہرہ پر مارنے سے اجتناب كرنا چاہيے، اور زيادہ مارنا جائز نہيں كہ ہڈى توڑ دے يا پھر زخم كر دے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
مرد عورتوں پر حاكم ہيں اس وجہ سے كہ اللہ تعالى نے ايك كود وسرے پر فضيلت دى ہے، اور اس وجہ سے كہ مردوں نے اپنے مال خرچ كيے ہيں، پس نيك و فرمانبردار عورتيں خاوند كى عدم موجودگى ميں بہ حفاظت الہى نگہداشت ركھنے والياں ہيں، اور جن عورتوں كى نافرمانى اور بددماغى كا تمہيں خوف ہو انہيں نصيحت كرو، اور انہيں الگ بستروں پر چھوڑ دو، اور انہيں مار كى سزا دو، پھر اگر وہ تابعدارى كريں تو ان پر كوئى راستہ تلاش نہ كرو، بےشك اللہ تعالى بڑى بلندى والا اور بڑائى والا ہے النساء ( 34 ).
اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ دونوں كے حالات كى اصلاح فرمائے.
واللہ اعلم .