منگل 23 جمادی ثانیہ 1446 - 24 دسمبر 2024
اردو

غربت کے منفی اثرات اور اسلام کی روشنی میں اس کے خاتمے کے ذرائع

سوال

اسلام غربت کے خاتمے کے لیے کیا اقدامات پیش کرتا ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

غربت اللہ تعالی کی طرف سے تقدیر میں لکھی گئی مصیبت ہے، غربت کا سامنا کسی معین شخص، یا خاندان یا سماج کو ہو سکتا ہے، غربت کی وجہ سے انسانی رویوں اور نظریات دونوں پر منفی اثرات پڑتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بہت سی مشنری تنظیمیں مختلف اقوام کی غربت اور مالی تنگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان میں عیسائیت پھیلا رہی ہیں، اسی طرح غربت کی وجہ سے لوگوں میں بہت سے گھٹیا کام اور جرائم پیدا ہوتے ہیں، لوگ اپنی غربت مٹانے اور اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے چوری ، قتل، زنا، اور حرام چیزیں فروخت کرنے کا سہارا لیتے ہیں۔ اور انہی چیزوں کے معاشرے میں عام ہونے سے فرد اور پورے سماج پر نہایت منفی اثرات رونما ہوتے ہیں، اللہ تعالی نے بھی مشرکین کے بارے میں ذکر فرمایا ہے کہ کچھ مشرک اپنی اولاد اور جگر کے ٹکڑوں کو اپنی موجودہ کمزور مالی حالت کی وجہ سے قتل کر دیتے تھے، یا مستقبل کے خدشات کی وجہ سے کہ کہیں انہیں غربت کا سامنا نہ کرنا پڑے! تو پہلے لوگوں کے متعلق اللہ تعالی نے فرمایا: وَلا تَقْتُلُوا أَوْلادَكُمْ مِنْ إِمْلاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ ترجمہ: اور تم اپنی اولاد کو غربت کی وجہ سے قتل مت کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی دیں گے۔[الانعام: 151] اور دوسری قسم کے لوگوں کے متعلق فرمایا: وَلا تَقْتُلُوا أَوْلادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئاً كَبِيراً ترجمہ: اور تم اپنی اولاد کو غربت کے خدشے سے قتل مت کرو، ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی دے رہے ہیں؛ یقیناً ان کا قتل بہت بڑی غلطی ہے۔[الاسراء: 31]

بخاری و مسلم میں بنی اسرائیل کی اس عورت کا تذکرہ موجود ہے جسے کچھ رقم کی ضرورت ہوئی اور اسے اپنے چچا زاد کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہ آیا ، اور اسی چچا زاد نے اسے جسمانی تعلق کے عوض رقم دینے کی آفر کی، لیکن اللہ تعالی نے ان دونوں کو غلط کاری سے بچا لیا ، جس کا سبب یہی عورت بنی کہ اس نے اپنے چچا زاد کو اللہ کا ڈر اور خوف دلایا اور وہ غلط کاری سے باز آ گیا۔

بہ ہر حال : یہ بات اس وقت سب کو معلوم ہے کہ غربت کی وجہ سے جرائم اور فسادات جنم لیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اقوام عالم اس وقت غربت کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں، اور اس کے لیے کچھ ایسے فضول اقدامات کر رہی ہیں کہ جس سے غربت کا خاتمہ ہو جائے، حالانکہ غربت کے خاتمے کا اسلام کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے؛ کیونکہ اسلام کے احکامات سب لوگوں کے لیے ہیں اور قیامت تک کے لیے ہیں۔

دوم:

غربت کے خاتمے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ہماری پاکیزہ شریعت میں ذرائع اور وسائل بیان کیے گئے ہیں، ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

1-لوگوں کو صحیح نظریہ اور عقیدہ سکھائیں کہ رزق اللہ تعالی کی طرف سے ہوتا ہے، وہی رازق ہے، اور اگر اللہ تعالی کی طرف سے کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ بھی کسی حکمت کی وجہ سے ہوتی ہے، اگر کوئی مسلمان غربت اور فقر میں مبتلا ہو تو صبر سے کام لے، اور جہاں تک ممکن ہو سکے اپنی غربت کے خاتمے کے لیے جد و جہد کرے اور اپنے اہل خانہ کی ضروریات حلال طریقے سے پوری کرے۔

اس سلسلے میں فرمانِ باری تعالی ہے: إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ ترجمہ: یقیناً اللہ تعالی ہی ہمیشہ سے بہت زیادہ رزق دینے والا ، قوت والا اور مضبوط ہے۔ [الذاریات: 58]

اسی طرح فرمایا: وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُبِينٍ
ترجمہ: زمین پر جو بھی جاندار ہے اس کا رزق صرف اللہ تعالی کے ہی ذمہ ہے، وہی اس کی پیدائش سے پہلے کی جگہ بھی جانتا ہے اور دفن ہونے کی جگہ بھی، ہر چیز کتاب مبین میں واضح ہے۔ [ھود: 6]

ایک اور مقام پر فرمایا: أَمَّنْ هَذَا الَّذِي يَرْزُقُكُمْ إِنْ أَمْسَكَ رِزْقَهُ بَلْ لَجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ
ترجمہ: اگر اللہ تم سے اپنا رزق روک لے تو کون ہے جو تمہیں رزق دے ؟ بلکہ کافر تو سرکشی اور نفرت میں ڈوبتے چلے جا رہے ہیں۔ [الملک: 21]

اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلاً
ترجمہ: یقیناً ہم نے بنی آدم کی تکریم کی اور ہم نے انہیں بر و بحر میں سواریاں عطا کیں، اور انہیں پاکیزہ رزق عطا کیا، پھر انہیں ہم نے ہی اپنی بہت سی مخلوقات پر یقینی فضیلت سے نوازا۔[الاسراء: 70]

جب انسان کا نظریہ اور عقیدہ درست ہو جائے تو یہی درست عقیدہ انسان کے لیے غربت یا کسی اور شکل میں پہنچنے والی مصیبت پر صبر کے لیے معاون بنے گا، انسان صرف اور صرف ایک اللہ سے ہی روزی کی طلب رکھے گا، انسان اللہ تعالی کے فیصلوں پر راضی ہو گا، اور تلاش معاش کے لیے کوشش کرتا رہے گا۔

سیدنا صہیب رومی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے کہ اس کی ہر حالت مومن کے لیے بھلائی کا باعث ہے۔ اور یہ بات مومن کے سوا کسی اور کو میسر نہیں۔ اسے خوشحالی ملے تو شکر کرتا ہے اور شکر اس کے لیے اچھائی کا باعث بن جاتا ہے، اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچے تو صبر کر تا ہے اس طرح صبر بھی اس کے لیے بھلائی کا باعث بن جاتا ہے۔) اسے مسلم: (2999) نے روایت کیا ہے۔

آپ مسلمانوں میں اس عقیدے کے مثبت اثرات کا اندازہ غیروں کو دیکھ کر لگا سکتے ہیں ، مثال کے طور پر جاپان میں 2003 میں 33 ہزار لوگوں نے خود کشی کی! اور ان کی خود کشی کا سبب بے روز گاری تھا! اس حوالے سے بی بی سی عربی کی ویب سائٹ پر 1 / 9 / 2004 ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ:
“سرکاری اعداد و شمار کہتے ہیں کہ جاپان میں 33 ہزار لوگوں نے گزشتہ سال خود کشی کی ، اس حوالے سے جاپانی عہدے داران کا کہنا ہے کہ: خود کشی کے واقعات میں غیر معمولی اضافے کی وجوہات میں سے ایک جاپان کے کمزور اقتصادی حالات ہیں جو کہ گزشتہ پچاس سالوں میں سب سے بد ترین ہیں، اس کی وجہ سے بے روز گاری میں اتنا اضافہ ہو گیا ہے کہ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا، لوگوں میں ڈپریشن کا مرض بڑھ گیا ہے، اور اس بیماری میں مبتلا ہونے والے افراد میں بوڑھے لوگ زیادہ ہیں۔” ختم شد

اللہ تعالی کا فرمان ہے: إِِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيراً بَصِيراً
ترجمہ: یقیناً تیرا رب جسے چاہتا ہے وافر رزق عطا فرماتا ہے جسے چاہتا ہے محدود مقدار میں عطا کرتا ہے، یقیناً وہ اپنے بندوں کی خبر رکھنے والا اور دیکھنے والا ہے۔ [الاسراء: 30]

ان آیات کی تفسیر میں امام ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“فرمانِ باری تعالی: إِِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ میں اس بات کی خبر دی گئی ہے کہ اللہ تعالی ہی رزاق ہے، وہی روزی تنگ کرتا ہے اور وافر فرماتا ہے، وہ اپنی مخلوقات کے معاملات کو جیسے چاہتا ہے چلاتا ہے، لہذا جسے چاہے وہ غنی کر دیتا ہے اور جسے چاہے وہ غریب بنا دیتا ہے، اس میں اللہ تعالی کی حکمتیں پنہاں ہیں، اسی لیے تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ: إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيراً بَصِيراً یعنی: اللہ تعالی کو مکمل خبر اور کامل بصیرت حاصل ہے کہ کسے غنی بنانا ہے اور کس کو تنگ دست رکھنا ہے۔۔۔
بسا اوقات ثروت کسی شخص کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے استدراج بھی ہو سکتا ہے، اور غربت کسی کے لیے سزا بھی ہو سکتی ہے، اللہ تعالی ہمیں دونوں کیفیتوں سے محفوظ رکھے۔ ” ختم شد
تفسیر ابن کثیر: ( 5 / 71 )

2-فقر و فاقہ سے اللہ تعالی کی پناہ مانگیں۔

احادیث مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے عمل سے ایسی چیزیں ملتی ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم خود بھی فقر و فاقہ سے پناہ مانگتے تھے اور اپنی امت کو بھی سکھاتے تھے؛ کیونکہ غربت اور فقر کے انسانی شخصیت، خاندان اور معاشرے پر گہرے اثرات پڑتے ہیں۔

چنانچہ مسلم بن ابو بکرہ سے منقول ہے کہ میرے والد محترم ہر نماز کے بعد یہ پڑھا کرتے تھے: اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْكُفْرِ وَالْفَقْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ یعنی: یا اللہ! میں کفر، فقر اور عذاب قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ تو میں بھی یہ کلمات کہنے لگا۔ اس پر والد محترم پوچھنے لگے: بیٹا! یہ کلمات تم نے کس سے سیکھے ہیں؟ میں نے کہا: آپ سے۔ تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی نماز کے بعد یہ کلمات کہا کرتے تھے۔

اس حدیث کو نسائی رحمہ اللہ : (1347)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح سنن نسائی میں صحیح قرار دیا ہے۔

ایسے ہی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم دعا کیا کرتے تھے: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْكَسَلِ وَالْهَرَمِ وَالْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ فِتْنَةِ النَّارِ وَعَذَابِ النَّارِ وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْغِنَى وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْفَقْرِ یا اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں سستی سے، بڑھاپے سے، گناہ سے، قرض سے اور قبر کی آزمائش سے اور قبر کے عذاب سے اور دوزخ کی آزمائش سے اور دوزخ کے عذاب سے اور ثروت کی آزمائش کے شر سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں غربت کی آزمائش کے شر سے ۔
اس حدیث کو امام بخاری: (6007) اور مسلم : (589) نے روایت کیا ہے۔

3- شریعت کام کرنے، تلاش معاش کے لیے جد و جہد کرنے، اور کمانے کے لیے دوڑ دھوپ کرنے کی ترغیب دلاتی ہے۔

اسی لیے فرمانِ باری تعالی ہے: هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولاً فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِنْ رِزْقِهِ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ ترجمہ: وہی ذات ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو چلنے کے قابل بنایا، لہذا تم اس کے راستوں پر چلو اور اللہ کے دئیے ہوئے رزق میں سے کھاؤ، اسی کی طرف تم نے لوٹنا ہے۔ [الملک: 15]

اسی طرح اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا: فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيراً لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ترجمہ: جب نماز پوری ہو جائے تو پھر زمین پر پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو، نیز اللہ کو بہت زیادہ یاد رکھو، تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ [الجمعہ: 10]

سیدنا مقدام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کسی نے بھی اپنے ہاتھ کی کمائی سے اچھا کھانا کبھی نہیں کھایا، یقیناً اللہ کے نبی داود علیہ السلام بھی اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھایا کرتے تھے۔) اسے بخاری: (1966) نے روایت کیا ہے۔

سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم میں سے کوئی رسی لے کر جائے اور اپنی پیٹھ پر لکڑیوں کا گٹھا اٹھا لائے اور اسے فروخت کرے ، اس طرح اللہ تعالی اس کے چہرے کو مانگنے سے بچا لے، یہ اس سے بہتر ہے کہ لوگوں سے مانگتا پھرے، اور لوگ بھی چاہیں تو اسے دیں یا نہ دیں۔) اسے بخاری : (1402)نے روایت کیا ہے۔

4- شریعت نے صاحب حیثیت لوگوں کے مال میں زکاۃ واجب کی ہے۔

اللہ تعالی نے فقرا کے لیے زکاۃ میں حصہ مخصوص فرمایا ہے، اور زکاۃ غریب شخص کو اس کا مالک بنا کر دی جاتی ہے، اور اتنی مقدار دی جا سکتی ہے جس سے وہ غنی ہو جائے، اور اس کی غربت ختم ہو جائے۔

اس حوالے سے فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ترجمہ: یقیناً مالِ زکاۃ فقرا، مساکین، زکاۃ جمع کرنے والے کارندوں، تالیف قلبی والے غیر مسلموں ، گردنیں آزاد کروانے، چٹی بھرنے والوں، اور فی سبیل اللہ سمیت مسافروں کے لیے ہیں ، یہ اللہ تعالی کی طرف سے فریضہ ہے، اور اللہ تعالی جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ [التوبہ: 60]

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا: وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ . لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ترجمہ: اور وہ لوگ جو اپنے مالوں میں مقررہ حصہ رکھتے ہیں، مانگنے والوں کے لیے بھی اور محروم لوگوں کے لیے بھی۔ [المعارج: 24 – 25]

5- اسلام عمومی صدقات ، اوقاف بنانے، یتیموں اور بیواؤں کی کفالت کرنے کی ترغیب دلاتا ہے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا وَأَنْفِقُوا خَيْرًا لِأَنْفُسِكُمْ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
ترجمہ: پس تم حسب استطاعت تقوی الہی اپناؤ، ہدایات غور سے سنو اور پھر ان پر عمل کرو، اور خرچ بھی کرو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے، جس شخص کو اپنے نفس کی بخیلی سے بچا لیا گیا تو یہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں۔ [التغابن: 16]

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ
ترجمہ: اور تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے وہ اسے واپس لوٹائے گا، اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔ [سبا: 39]

اسی طرح ایک اور جگہ پر فرمایا:
وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا
ترجمہ: اور تم اپنے لیے جو بھی دولت پیش کرو گے اسے اللہ تعالی کے ہاں پا لو گے، یہ عمل بہتر بھی ہے اور اجر کے لیے عظیم بھی ہے۔ [المزمل: 20]

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی ترغیب دلائی جیسے کہ سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا آپ فرما رہے تھے: (تم میں سے کوئی اگر آدھی کھجور کے ذریعے بھی آگ سے بچنے کی طاقت رکھتا ہے تو بچ جائے) اس حدیث کو امام بخاری: (1347) اور مسلم : (1016) نے روایت کیا ہے، اور یہ الفاظ صحیح مسلم کے ہیں۔

سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں ایسے ہوں گے، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی شہادت والی اور درمیانی انگلی کے درمیان تھوڑا سے فاصلہ کر کے اشارہ فرمایا۔) اسے بخاری: (4998) نے روایت کیا ہے، جبکہ اسی سے ملتی جلتی روایت صحیح مسلم: (2983) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (بیواؤں اور مسکین کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والا شخص راہِ الہی میں جہاد کرنے والے مجاہد یا رات کو قیام اور دن میں صیام کا اہتمام کرنے والے عابد کی طرح ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (5038) اور مسلم : (2982) نے روایت کیا ہے۔

6-اسلام نے سود، اور جوے سمیت خرید و فروخت میں دھوکا دہی کو حرام قرار دیا۔

فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ . فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُؤُوسُ أَمْوَالِكُمْ لا تَظْلِمُونَ وَلا تُظْلَمُونَ
ترجمہ: اے ایمان والو! تقوی الہی اپناؤ اور اگر تم مومن ہو تو باقی ماندہ سود چھوڑ دو، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو پھر اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔ اور اگر تم توبہ کر لو تو تمہارے لیے تمہارا رأس المال ہے، نہ تم کسی پر ظلم کرو، اور نہ ہی تم پر ظلم کیا جائے گا۔ [البقرۃ: 278- 279]

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
ترجمہ: اے ایمان والو! یقیناً شراب، جوا، شرک کی جگہیں اور پانسے پلید اور شیطانی عمل ہیں، ان سے بچو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ [المائدہ: 90]

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک بار اناج کی ڈھیری کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا ہاتھ اس میں ڈالا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو گیلا پن محسوس ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اناج کی ڈھیری والے یا کیا ہے؟ تو اس نے بتلایا : یا رسول اللہ ! اس پر بارش ہو گئی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تو تم نے اسے اناج کے اوپر ہی کیوں نہیں رہنے دیا تا کہ لوگ اسے دیکھ لیں؟ جس نے دھوکا دیا وہ مجھ سے نہیں۔
اسے مسلم : (102) نے روایت کیا ہے۔

مذکورہ بالا امور جس معاشرے میں پائے جائیں گے ان کی وجہ سے لوگوں کا مال باطل طریقے سے ہڑپ ہوتا رہے گا، اور پھر ایسا بھی ممکن ہے کہ لوگ اپنی ساری دولت سے انہی غلط طریقوں کی وجہ سے ہاتھ دھو بیٹھیں ۔ اس لیے شریعت نے ان تمام غلط طریقوں کو حرام قرار دیا ہے۔

7- ضرورت مند کی مدد کرنے اور کمزور لوگوں کا سہارا بننے کی ترغیب۔

سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اہل ایمان کی باہمی محبت، شفقت، اور نرمی کی مثال ایک جسم جیسی ہے کہ اگر جسم کا ایک عضو بیمار ہو تو سارے کا سارا جسم ہی بے خوابی اور بخار جیسی کیفیت میں مبتلا رہتا ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (5665) اور مسلم : (2586) نے روایت کیا ہے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (مسلمان وہ نہیں جو خود سیر شکم ہو اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔) اس حدیث کو دیگر اہل علم سمیت امام بیہقی رحمہ اللہ نے شعب الایمان : (9251) روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے۔

اسی طرح مؤطا امام مالک: (1742) میں یحیی بن سعید بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ وہ گوشت اٹھائے جا رہے ہیں، تو آپ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟
تو سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: امیر المؤمنین ہمارا گوشت کھانے کو دل چاہ رہا تھا تو میں نے ایک درہم کا گوشت خرید لیا!!
اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا تم اپنا پیٹ اپنے پڑوسی یا چچا زاد سے چھپا نہیں سکتا؟!!! کیا تمہیں یہ آیت بھول گئی ہے؟ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمْ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا مفہوم: تم اپنی دنیا کی زندگی میں اپنی لذت والی چیزیں لے چکے، اور تم نے ان سے فائدہ اٹھا لیا ۔

مندرجہ بالا تفصیلات کے بعد:

یہ غربت اور فقر کی حقیقت کے حوالے سے مختصر گفتگو تھی، اس میں غربت کے کچھ منفی اثرات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ہر مسلمان کو یہ علم ہوتا ہے کہ غربت اور ثروت، عنایت اور ممانعت سب اللہ تعالی کے اختیار میں ہیں، اس لیے جب کوئی تکلیف آئے تو مسلمان صبر کرے، اور اگر کوئی خوشی ملے تو اس پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرے۔ اس سب کے باوجود مسلمان سے یہ شرعی طور پر مطلوب ہے کہ اپنے لیے کام تلاش کرے، اپنی اور اپنے اہل خانہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے محنت کرے، چنانچہ اگر کوئی شخص جسمانی طور پر یا اپنے علاقے کی صورتحال کی وجہ سے کمانے سے قاصر ہو تو اسلام اس کی غربت کو زکاۃ و صدقات کے ذریعے ختم کرتا ہے، یہ ایک غریب کا ہر مالدار کے مال میں حق ہوتا ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب