اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

عذاب والی آیت پڑھتے وقت عذاب سے اللہ کی پناہ حاصل کرنا شرعی عمل ہے۔

سوال

دوران نماز قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے عذاب والی آیات پر پہنچ کر اللہ تعالی سے پناہ مانگنے کا کیا حکم ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

یہ مسنون ہے کہ نماز پڑھنے والا شخص جب عذاب کی آیات پڑھے تو عذاب سے اللہ تعالی کی پناہ مانگے، اور جب رحمت کی آیات پڑھے تو اللہ تعالی سے رحمت مانگے، جمہور اہل علم کے مطابق یہ مسنون عمل ہے؛ کیونکہ صحیح مسلم: (772) میں سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ایک نماز ادا کی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سورت البقرۃ کی تلاوت شروع کر دی، میں نے دل میں کہا: آپ 100 آیات پڑھ کر رکوع کریں گے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم پڑھتے چلے گئے، میں نے دل میں کہا: آپ ایک رکعت میں مکمل سورت پڑھیں گے، لیکن آپ نے سورت البقرہ کے بعد سورت النسا شروع کر دی، پھر اسے مکمل کرنے کے بعد سورت آل عمران شروع کر دی، آپ نے اسے بھی مکمل فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ساری نماز میں ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کی ، جب آپ کسی تسبیح والی آیت کو پڑھتے تو اللہ کی تسبیح بیان کرتے، اور جب کسی مانگنے والی آیت پر گزرتے تو دعا فرماتے اور جب کسی پناہ والی آیت سے گزرتے تو اللہ تعالی کی پناہ مانگتے تھے۔
اس حدیث کو ترمذی اور نسائی نے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے کہ: جب کسی عذاب والی آیت سے گزرتے تو رک جاتے اور عذاب سے پناہ مانگتے تھے۔

اسی طرح ابو داود: (873) اور نسائی میں ہے کہ: سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ قیام اللیل میں کھڑا ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سورت البقرۃ کی تلاوت فرمائی، آپ کسی بھی رحمت والی آیت کو پڑھتے تو رک کر رحمت کی دعا کرتے ، اسی طرح جب کسی عذاب والی آیت سے گزرتے تو رک کر عذاب سے پناہ مانگتے۔ سیدنا عوف مزید کہتے ہیں کہ: پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اتنا ہی لمبا رکوع کیا جتنا قیام لمبا تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے رکوع کے دوران یہ دعا پڑھی:  سُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَكُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے قیام کے برابر ہی سجدہ کیا، اور سجدے میں بھی یہی دعا کی، اور پھر اگلی رکعت کے لیے کھڑے ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سورت آل عمران کی تلاوت فرمائی، اور پھر ایک ایک سورت پڑھتے چلے گئے۔

اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عذاب والی آیات پر رک کر عذاب سے پناہ مانگنا شرعی عمل ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ "المجموع" (3/562) میں کہتے ہیں:
"امام شافعی اور ہمارے دیگر فقہائے کرام کہتے ہیں: نماز اور غیر نماز میں قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے کے لیے مسنون ہے کہ جب رحمت والی آیات پڑھے تو اللہ تعالی سے رحمت مانگے، اور جب عذاب والی آیات سے گزرے تو عذاب سے پناہ مانگے، اسی طرح جب تسبیح کی آیات سے گزرے تو اللہ تعالی کی تسبیح بیان کرے، یا کسی مثال پر مشتمل آیت سے گزرے تو غور و فکر کرے۔
ہمارے شافعی فقہائے کرام اس عمل کو امام، مقتدی، اور اکیلے تمام نمازیوں کے لیے جائز سمجھتے ہیںَ ۔۔۔ یہ تمام امور نماز کے دوران اور نماز سے باہر تلاوت قرآن کرنے والے کے لیے مستحب اعمال ہیں، چاہے نماز فرض ہو یا نفل، نمازی مقتدی ہو یا امام یا اکیلا ہی نماز ادا کر رہا ہو؛ کیونکہ یہ سب دعائیں ہیں اور دعا میں سب کے سب یکساں حکم رکھتے ہیں، جیسے کہ سورت فاتحہ کے بعد آمین کہنے میں سب برابر ہیں، اس مسئلے کی دلیل سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے۔ تو یہ ہے ہماری شافعی موقف کی تفصیلات۔ جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ : نماز میں رحمت اور پناہ طلب کرنے والی آیات پڑھتے ہوئے دعا کرنا مکروہ ہے۔ ہمارے شافعی موقف کے مطابق جمہور سلف صالحین اور دیگر علمائے کرام کا موقف ہے" ختم شد

اسی طرح "كشاف القناع" (1/384) میں ہے کہ:
"فرض یا نفل نماز پڑھنے والا شخص آیتِ رحمت یا آیتِ عذاب پڑھے تو رحمت کی دعا اور عذاب سے بچنے کی دعا کر سکتا ہے۔" ختم شد
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے سوال پوچھا گیا:
"جہری نماز میں امام جس وقت قراءت کر رہا ہو تو امام سے تعوذ، یا تسبیح یا آمین کہنے کا تقاضا کرنے والی آیات سننے پر سبحان اللہ کہنا، یا اعوذ باللہ کہنا یا آمین کہنا کیسا عمل ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"ایسی آیات جن پر سبحان اللہ، یا اعوذ باللہ کہنا پڑے یا دعا کرنے پڑے تو ایسی آیات رات کے قیام میں پڑھنے پر قاری کے لیے مسنون ہے کہ تسبیح ، یا تعوذ یا دعا  جو بھی عمل آیت کے مناسب ہو کر لے، چنانچہ وعید والی آیات پر تعوذ پڑھے، اور رحمت کے تذکرے والی آیات پر دعا مانگے۔

لیکن اگر امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو تو افضل یہی ہے کہ غور سے کان لگا کر امام کی قراءت سنے، ہاں البتہ اگر امام رحمت والی آیت کے آخر میں تھوڑی دیر رکتا ہے تو مقتدی اللہ تعالی سے رحمت کا سوال کر لے، یا پھر اگر آیت وعید والی ہے تو تعوذ پڑھ لے، اور اگر اللہ تعالی کی عظمت بیان کرنے والی آیت ہو تو تسبیح کہہ لے۔ لیکن اگر امام آیت کے مکمل ہونے پر توقف نہ کرے بلکہ اپنی قراءت جاری رکھے تو مجھے خدشہ ہے کہ ایسی وقتی دعاؤں میں مشغول ہونے سے وہ شخص امام کی تلاوت کو سننے سے مشغول ہو جائے گا حالانکہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے صحابہ کرام کے بارے میں سنا کہ وہ جہری نمازوں میں امام کے پیچھے خود بھی تلاوت کرتے ہیں تو فرما دیا تھا: (تم صرف سورت فاتحہ ہی پڑھا کرو؛ کیونکہ جس نے سورت فاتحہ نہیں پڑھی اس کی کوئی نماز ہی نہیں ) " ا نتہی
ماخوذ از: فتاوی نور علی الدرب

تاہم کچھ اہل علم نے اس عمل کو محض نفل نماز میں مستحب قرار دیا ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ عمل صرف نفل نماز میں منقول ہوا ہے، تاہم اگر کوئی فرض نماز میں بھی یہ عمل کرتا ہے تو جائز ہے، لیکن یہ مسنون نہیں ہے۔

اور کچھ اہل علم نے فرض اور نفل ہر دو نمازوں میں اس عمل کی اجازت دی ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب