اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

شراب كے گلاس كو قلعى كرنا اور اللہ عزوجل كى شان ميں گستاخياں كى جانے والے ہوٹل ميں ملازمت كا حكم

96614

تاریخ اشاعت : 03-09-2007

مشاہدات : 8211

سوال

ميں فلسطين كے قدس شہر ميں رہائش پذير ہوں، اور ايك يہودى مالك كے ہوٹل ميں ملازمت كى جہاں شراب پيئے جانے والے گلاسوں اور ہوٹل كى ڈشيں اور برتن صاف كرنے كرتا رہا ہوں، آپ پر يہ تو كوئى مخفى نہيں كہ يہوديوں كے ہوٹل ميں بہت ہى كم ہوتا ہے كہ وہاں نشہ آور اشياء يا شراب كے ساتھ بنى ہوئى اشياء، يا شراب كا نبيذ نہ ہو، اس كے ليے علاوہ اور دوسرے گرم مشروبات اور اشياء بھى فروخت ہوتى ہيں.
ميں دوران ملازمت ان اشياء كو اٹھانے سے اجتناب كرتا رہا ہوں حالانكہ بعض معصيت اور نافرمانى ميں ڈوبے ہوئے مسلمان ان اشياء كو اٹھاتے يا نوش كرتے، ليكن ميں شراب پينے والے گلاس تو صاف كرتا رہا ہوں، ـ يہ گلاس خالى تو نہيں ہوتے بلكہ ان ميں كچھ نہ كچھ ہوتا جسے ميں انڈھيل كر گلاس دھو ديتا ـ اور اسى طرح ميں ان اشياء كى تيارى ميں استعمال ہونے والے آلات اور برتن بھى صاف كرتا تھا. آپ سے گزارش ہے كہ ميرے درج ذيل سوالات كا جواب عنائت كريں:
1 - كيا جن آلات اور اشياء كا اوپر بيان ہوا ہے اور شراب والےگلاس دھونا جائز ہے يا نہيں ؟
2 - كيا نشہ آور اشياء فروخت ہونے والى جگہ اور جہاں معصيت ميں لتھڑے ہوئے مسلمانوں كو گناہ سے منع نہ كر سكنے ہووہاں ملازمت كرنى جائز ہے، يہ علم ميں رہے كہ حق بيان نہ كرنے والا گونگا شيطان ہوتا ہے ؟
اس پر مستزاد يہ كہ اگر وہ گنہگار شخص ان اشياء كو نہيں اٹھائيگا يا دوسرے لوگ بھى دين پر عمل كرنے والے ہوں تو پھر مجھے شراب وغيرہ كو اٹھانے پر مجبور ہونا پڑےگا، يا پھر ملازمت چھوڑنے پر، اس پريشانى سے نجات كا طريقہ كيا ہے ؟
3 - اس دور ميں اسلامى معاشرہ جن خرابيوں ميں مبتلا ہے وہ اللہ جل شانہ اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور دين پر سب و شتم جيسے بيمارى ہے، يہ نافرمان اور يہوديوں جيسے افراد يہ شنيع اور خطرناك عمل دوران ملازمت بہت كرتے ہيں ( لا حول و لا قوۃ الا باللہ ) تو كيا سب و شتم كے وقت ميرا ان لوگوں كے پاس باقى رہنا جائز ہے، يا كہ مجھے يہ ملازمت ترك كر دينى چاہيے ـ يہ علم ميں رہے كہ آزاد ملازمت كے ميدان ميں بہت ہى كم نوجوان دين كا التزام كرنے والے ہوتے ہيں، بہت سى جگہ پر ہم يہ دينى كمى پاتے ہيں، حتى كہ ہم ميں سے بہت ساروں كے ليے تو يہ طبعى معاملہ بن چكا ہے كہ اس برائى كو روكتے ہى نہيں، نہيں بلكہ اس سے بھى خطرناك بات تو يہ ہے كہ اسے تشدد اور عنصريت شمار كرتے اور اسے ملازمت ہى سے فارغ كر ديتے ہيں ؟
4 - كيا ملازمت كے دوران ميں نے جو تنخواہ لى ہے وہ حلال ہے يا حرام، اور اگر بالكل حرام ہے، يا اس كا كچھ حصہ حرام ہے تو مجھے كيا كرنا ہوگا، كيونكہ ميں نے ابھى يہ رقم خرچ نہيں كى ؟
5 - نماز كے متعلق عرض ہے كہ وہاں نماز ادا كرنے كے ليے كوئى جگہ مخصوص نہيں، جہاں ميں نماز ادا كروں، صرف ايك كمرہ جو بطور سٹور استعمال ہوتا ہے، جہاں شراب بھى موجود ہے، تو كيا ايسى جگہ پر نماز ادا كر سكتا ہوں يا نہيں، اور اگر جائز نہيں تو مجھے كيا كرنا چاہيے ؟
اتنى لمبى كلام كرنے پر ميں آپ سے معذرت خواہ ہوں، ميرى آپ سے گزارش ہے كہ آپ اس مسئلہ ميں نقلى اور عقلى دلائل كے ساتھ شرعى حكم بيان كر كے فتوى ديں تا كہ مجھے ذرا برابر بھى شك نہ رہے، ميں ان شاء اللہ آئندہ اس پر عمل كرونگا، اور جو مفتى يا ادارہ فتوى دے اس كى بھى توثيق كريں، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اسلام ميں شراب اور خنزير قطعى طور پر حرام ہيں، اس كى حرمت كتاب و سنت اور اجماع سے ثابت ہے، ذيل ميں ہم كتاب و سنت اور اجماع ميں سے حرمت كے دلائل پيش كرتے ہيں:

كتاب اللہ سے دلائل:

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

تم پر مردار، خون، اور خنزيز كا گوشت، اور جو غير اللہ كے نام پر ذبح كيا جائے حرام كر ديا گيا ہے... المآئدۃ ( 3 ).

اور ايك دوسرے مقام پر فرمان بارى تعالى ہے:

اے ايمان والو! بات يہى ہے كہ شراب، جوا اور تھان اور فال نكالنے كے پانسے كے تير يہ سب گندى باتيں اور شيطانى عمل ہيں، تم اس سے اجتناب كرو تا كہ تم كامياب ہو سكو المآئدۃ ( 90 ).

جن مقامات اور جگہوں پر يہ اشياء فروخت كى جاتى ہوں، يا پھر ايسے ہوٹل جہاں يہ پيش كى جائے، وہاں ملازمت كرنا، ياجن برتنوں اور ميں يہ پيش كيے جاتے ہيں انہيں دھونا اور صاف كرنا، بھى حلال نہيں، بلكہ يہ گناہ و معصيت ميں معاونت اور شركت ہے، اور ايسا كرنے والا لعنت كا مستحق ٹھرتا ہے؛ كيونكہ صرف شراب نوشى كرنے والے پر ہى لعنت نہيں كى گئى بلكہ اسے اٹھانے والے پر بھى لعنت كى گئى ہے، اور ان جگہوں پر ملازمت كرنى گناہ و معصيت اور ظلم و زيادتى ميں معاونت ہے جو كہ حرام ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور تم نيكى و بھلائى اور تقوى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہو، اور برائى و گناہ اور معصيت و ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كے ساتھ تعاون مت كرو، اور اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو يقينا اللہ تعالى سخت سزا دينے والا ہے المآئدۃ ( 2 ).

ان دونوں مسئلوں كے متعلق ذيل ميں كچھ فتاوى جات ذكر كيے جاتے ہيں:

1 - مستقل فتوى كميٹى كے علماء سے درج ذيل سوال كيا گيا:

يہاں ہم ہالينڈ ميں مسلمان نوجوان دينى امور كا التزام كرتے ہيں، ليكن جتنى بھى ملازمت اور كام ہيں وہاں شراب، اور ہوٹلوں ميں خنزير كا گوشت پايا جاتا ہے، اور دوسرے گوشت بھى ملتے ہيں، تو كيا جن برتنوں ميں خنزير كا گوشت پكايا اور تيار كيا جاتا ہے انہيں دھونے اور صاف كرنے كا كام كرنا جائز ہے، تا كہ روزى كمائى جا سكے ؟

آپ ہميں اس كے متعلق معلومات فراہم كريں، اللہ تعالى آپ كو فائدہ دے اور ہميں اور آپ كو نيكى كے كام كرنے كى توفيق سے نوازے، جزاكم اللہ خيرا.

كميٹى كے علماء كا جواب تھا:

" جہاں شراب فروخت كى جاتى ہو، يا شراب نوشى كرنے والوں كو پيش كى جاتى ہو وہاں آپ كے ليے ملازمت كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى آپ ان ہوٹلوں ميں ملازمت كريں جہاں خنزير كا گوشت پكا كر پيش كرتے ہيں، يا خريداروں ميں فروخت كرتے ہيں، چاہے وہاں اس كے علاوہ اور بھى كھانے اور گوشت ہوں، اور چاہے آپ كا كام فروخت كرنا، يا بطور ويٹر لوگوں كو كھانا پيش كرنا ہو، يا پھر برتن صاف كرنے كا كام ہو؛ كيونكہ اس ميں گناہ و مصيت ميں معاونت ہوتى ہے، اور اللہ سبحانہ وتعالى نے اس سے منع كرتے ہوئے فرمايا ہے:

اور تم برائى و گناہ اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو .

اور اس پر مجبور ہونے كى كوئى ضرورت نہيں، كيونكہ اللہ تعالى كى زمين بہت وسيع ہے، اور مسلمان ممالك بہت زيادہ ہيں، اور شرعى طور پر مباح اور جائز كام بھى بہت زيادہ ہيں، اس ليے آپ كسى ايسے علاقے اور ملك يا شہر ميں مسلمانوں كى جماعت كے ساتھ مل كر رہيں جہاں آپ كے ليے جائز اور مباح كام كرنے ميں آسانى ہو.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتا ہے، اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے روزى بھى وہاں سے ديتا ہے جہاں سے اسے وہم و گمان بھى نہيں ہوتا، اور جو كوئى اللہ تعالى پر بھروسہ كرتا ہے تو اللہ تعالى اسے كافى ہو جاتا ہے، بلا شبہ اللہ تعالى اپنا كام پورا كرنے والا ہے يقينا اللہ تعالى نے ہر چيز كا اندازہ مقرر كر ركھا ہے .

اور اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كريگا تو اللہ تعالى تمہارے معاملے كو آسان كر ديگا .

الشيخ عبد العزيز بن باز.

الشيخ عبد الرزاق عفيفى.

الشيخ عبد اللہ بن غديان.

الشيخ عبد اللہ بن قعود.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 14 / 414 ).

2 - اور ايك سوال: خنزير كا گوشت فروخت كرنے والى جگہ پر ملازمت كرنے كے جواب ميں كميٹى كا علماء كا جواب تھا:

" اگر تو معاملہ ايسا ہى ہے جيسا بيان ہوا ہے تو آپ كے ليے وہاں ملازمت جارى ركھنا جائز نہيں؛ كيونكہ اس ميں گناہ و معصيت اور ظلم ميں معاونت ہوتى ہے جس سے اللہ سبحانہ وتعالى نے منع كرتے ہوئے فرمايا ہے:

اور تم نيكى و بھلائى اور تقوى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہو، اور برائى و گناہ اور معصيت و ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كے ساتھ تعاون مت كرو، اور اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو يقينا اللہ تعالى سخت سزا دينے والا ہے المآئدۃ ( 2 ).

اور ہم آپ كو نصيحت كرتے ہيں كہ آپ مذكورہ كام چھوڑ كر كوئى اور كوئى كام تلاش كريں، كيونكہ:

اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتا ہے، اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے روزى بھى وہاں سے ديتا ہے جہاں سے اسے وہم و گمان بھى نہيں ہوتا .

اور جو شخص بھى كوئى چيز اللہ تعالى كے ليے ترك كرتا ہے تو اللہ اللہ تعالى بھى اس كے عوض ميں اسے اس سے بھى بہتر عطا فرماتا ہے.

الشيخ عبد العزيز بن باز.

الشيخ عبد اللہ بن غديان.

الشيخ صالح الفوزان.

الشيخ عبد العزيز آل شيخ.

الشيخ بكر ابو زيد.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 14 / 436 ).

دوم:

اور آپ نے اس حرام ملازمت اور ان حرام كاموں كے عوض جو تنخواہ لي اور مال كمايا ہے اس ميں سے جو كچھ آپ نے خرچ كر ديا اور اپنے تصرف ميں لاچكے ہيں تو اس كے مقابلہ ميں آپ كو كچھ دينے اور نكالنا لازم نہيں، اور اس مال ميں سے جو رقم آپ كے پاس باقى اور آپ كے پاس ہے تو وہ رقم نيكى و بھلائى كے كاموں ميں صرف كر ديں، ليكن اس ميں سے آپ كوئى فائدہ نہ اٹھائيں.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ايك شخص كسى يورپى ملك ميں ملازمت كے ليے گيا اور اسے عيسائيوں كے ايك ہوٹل ميں ملازمت ملى جہاں خنزير كا گوشت پيش كيا جاتا ہے، اور وہ يہ گوشت پكانے كا كام كرتا ہے، اور اس نے اس ملازمت سے كچھ رقم بھى جمع كر ركھى ہے، اس ملازمت كا دين اسلام ميں حكم كيا ہے ؟

اور اس رقم كا حكم كيا ہوگا، اور وہ اس ميں كس طرح تصرف كر سكتا ہے ؟

اور اگر اس رقم ميں سے اگر وہ كسى دوسرے شخص كو ہديہ اور تحفہ ديتا ہے تو كيا وہ اسے قبول كر لے يا كہ وہ حرام مال شمار ہوگا، اور اسے قبول كرنا جائز نہيں ؟

كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:

" يہ حرام كمائى ہے، اور اس شخص كو اس كام سے توبہ كرنى چاہيے جس سے اس نے يہ كمائى كى ہے، اور وہ فورى طور پر يہ كام ترك كر كے اپنے كيے پر نادم ہو كر آئندہ ايسا نہ كرنے كا عہد كرنا ہوگا، اور اس كے ليے اس كمائى ميں سے باقى مانندہ رقم سے كوئى فائدہ حاصل كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى وہ اسے بطور ہديہ اور تحفہ دے سكتا ہے.

الشيخ عبد العزيز بن باز.

الشيخ عبد الرزاق عفيفى.

الشيخ عبد اللہ بن غديان.

الشيخ عبد اللہ بن قعود.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 14 / 413 ).

اور شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

جن بھائيوں كو امريكيوں كى جانب سے مشكلات پيش آتى ہيں اور انہيں ان كے علاوہ كہى اور ملازمت بھى نہيں ملتى، اور پھر وہ ملازمت بھى شراب اور خنزيز كا گوشت فروخت كرنے والى دوكانوں پر ملتى ہے، ان كے اس كام اور اس كام سے حاصل ہونے والى تنخواہ كا حكم كيا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" اس كام سے حاصل ہونے والا مال حرام ہے؛ كيونكہ جب اللہ سبحانہ وتعالى نے كوئى چيز حرام كى ہے تو اس كى قيمت بھى حرام كردى ہے، اور مسلمانوں پر واجب اور ضرورى ہے كہ وہ آپس ميں ايك دوسرے كا تعاون كريں، اور اس شخص كے ليے كوئى ايسا كام تلاش كريں جو اس كى گزران زندگى ميں ممد و معاون ثابت ہو اور وہ زندگى بسر كر سكے"

ماخوذ از: فتاوى المكتب التعاونى جدہ سوال نمبر ( 6 ).

مزيد تفصيلات ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 78289 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

سوم:

اگر آپ وہاں سے جانے كى استطاعت ركھتے ہيں تو پھر آپ كے ليے اللہ تعالى كى ذات كو برا كہنے والوں كے ساتھ رہنا حلال نہيں، يہ تو اس صورت ميں ہے جب آپ كا كام مباح اور جائز ہوتا تو يہ بھى ان ضروريات ميں شامل نہيں تھا كہ آپ كے ليے وہاں رہنے كو مباح كر ديتا، تو پھر اگر وہ اصلا كام ہى حرام ہو تو كيسے وہاں رہنا جائز ہو سكتا ہے ؟!

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے سوال كيا گيا:

كيا اللہ تعالى كو گالى دينے والوں كے درميان موجود رہنا جائز ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" ايسے افراد كے پاس موجود رہنا جائز نہيں جو لوگ اللہ تعالى كو برا كہتے اور گالى ديتے ہيں؛ كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور اللہ تعالى اپنى كتاب ميں تم پر اپنا يہ حكم نازل كر چكا ہے كہ جب تم كسى مجلس والوں كو اللہ تعالى كى آيات كے ساتھ كفر كرتے ہوئے يا اس كا مذاق اڑاتے ہوئے سنو تو اس مجمع ميں ان كے ساتھ نہ بيٹھو! جب تك كہ وہ اس كے علاوہ اور باتيں نہ كرنے لگيں، ( ورنہ ) تم بھى اس وقت انہى جيسے ہو، يقينا اللہ تعالى سب منافقوں اور تمام كافروں كو جہنم ميں جمع كرنے والا ہے النساء ( 140 ).

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 2 ) سوال نمبر ( 238 ).

چہارم:

شراب والے سٹور ميں آپ كا نماز ادا كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اور اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ يہ اس عظيم عبادت كى ادائيگى كے ليے كوئى مناسب جگہ نہيں، ليكن اس سے نماز باطل نہيں ہوتى، اور نہ ہى آپ كے ليے وہاں ادا كردہ نمازوں كى دوبارہ ادائيگى لازم آتى ہے.

مسلمان شخص كو نماز كى ادائيگى كے اوقات اور اس كى ادائيگى كى پابندى كا بہت زيادہ اہتمام اور خيال كرنا چاہيے، اور اسے بہتر اور اچھى حالت ميں بہترين اور خوبصورت لباس پہن كر نماز ادا كرنى چاہيے، اور جہاں نماز ادا كرے وہ جگہ بھى پاك صاف ہو، ليكن اختيار كى حالت ميں يہ مكروہ ہوگا.

امام بخارى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" نماز كى ادائيگى كے وقت آگے تنور، يا آگ يا كوئى اور ايسى چيز ہو جس كى عبادت كى جاتى ہو ليكن وہ نماز كى ادائيگى ميں اللہ كے ليے ادا كرنے كى نيت كے متعلق باب "

زہرى رحمہ اللہ كہتے ہيں: مجھے انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ نے بتايا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مجھ پر دوران نماز آگ پيش كى گئى "

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" مصنف رحمہ اللہ نے ترجمہ الباب ( يعنى باب كے عنوان ) ميں اس كى كراہت وغيرہ كى كوئى صراحت نہيں كى؛ تو اس سے يہ احتمال پيدا ہوتا ہے كہ اس سے مصنف كى مراد اس ميں فرق كرنا ہے كہ اگر قبلہ رخ ايسى كوئى چيز ہو اور وہ اسے زائل كرنے يا وہاں سے ہٹنے پر قادر ہو، اور جو شخص قادر نہ ہو، اس ميں فرق ہے، تو دوسرے كے حق ميں مكروہ نہيں، اور يہ چيز باب ميں بيان كردہ حديث كے بھى مطابق ہے.

اور پہلے كے حق ميں مكروہ ہو گا، جيسا كہ اس كى صراحت ہو ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ سے مجسموں كے بارہ ميں آگے بيان ہو گى، اور جس طرح كہ ابن ابى شيبہ نے ابن سيرين سے بيان كيا ہے كہ انہوں نے تنور يا آگ كے گھر كى طرف رخ كر كے نماز ادا كرنا مكروہ ہے " انتہى.

ديكھيں: فتح البارى ( 1 / 629 ).

اور اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ شراب كى حالت تو اس چيز سے بہت كم ہے جس كى اللہ كے علاوہ بطور معبود عبادت كى جاتى ہے، اور پھر قبلہ رخ ہونے سے بھى اس كى حالت كم ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب