سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

محرم شخص كا زير جامہ پہننا

سوال

ميں اس برس حج پر جا رہا ہوں، ليكن صحت كى بنا پر مجھے انڈروئير پہننے كى ضرورت پيش آئيگى، كيونكہ جب ميں حركت كرتا ہوں تو پيشاب كے قطرے خارج ہوتے ہيں، اور اسى طرح مجھے دوران نماز بھى پہننے كى ضرورت پيش آئيگى تا كہ ميرا لباس خراب نہ ہو.
كيا ان حالات كے مدنظر ميرے ليے احرام كے نيچے انڈر وئير پہننا جائز ہے يا كہ نہيں، اور اگر جائز نہيں تو اس كا بدلے كيا كروں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

احرام كى حالت ميں شرمگاہ كو چھپانے والى چيز كے پہننے ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، اسے علماء " التبن " يعنى لنگوٹ كا نام ديتے ہيں، بعض علماء كرام بغير ضرورت كے بھى اسعتمال كرنے كے قائل ہيں، ان كا كہنا ہے كہ محرم كے ليے ممنوعہ اشياء كى نص ميں يہ وارد نہيں كہ يہ بھى ممنوع ہے.

ليكن جمہور علماء كرام كہتے ہيں كہ اس كا زيب تن كرنا منع ہے، انہوں نے اسے پاجامہ اور سلوار پر قياس كيا ہے بلكہ بعض علماء كرام تو كہتے ہيں كہ يہ بالاولى منع ہوگا.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور اسى طرح لنگوٹ تو سلوار اور پاجامہ سے زيادہ ممنوع ہے " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 21 / 206 ).

اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" المزنى رحمہ اللہ كا كہنا ہے: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور سے ليكر آج تك فقھاء كرام نے دين كے سب فقھى احكام ميں قياس كو استعمال كرتے رہے ہيں.

ان كا كہنا ہے: اس پر وہ سب متفق ہيں كہ حق كى نظير حق ہے، اور باطل كى نظير باطل ہے، لہذا كسى كے ليے بھى قياس كا انكار كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ يہ امور سے تشبيہ اور اس پر تمثيل ہے...

اور اس ميں يہ بھى شامل ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے محرم كے ليے احرام كى حالت ميں قميص اور پاجامہ اور سلوار اور پگڑى اور موزے پہننا ممنوع قرار ديا ہے، اور يہ ممانعت صرف انہى اشياء كے ساتھ خاص نہيں، بلكہ اس ميں جبہ اور ٹوپى اور جرابيں اور لنگوٹ وغيرہ بھى شامل ہيں " انتہى

ديكھيں: اعلام الموقعين ( 1 / 205 - 207 )ز

اس سے لنگوٹ كو جائز قرار دينے والے كا استدلال غلط ثابت ہو جاتا ہے كہ جس حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے محرم شخص كے ليے ممنوعہ اشياء كا ذكر كيا ہے اس ميں لنگوٹ كا ذكر نہيں ہے.

ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" حديث ميں جو بيان كيا گيا ہے درج ذيل اشياء بھى اس كے معنى ميں آئينگى مثلا قيمص اور سلوار اور پاجامہ اور ٹوپى وغيرہ بھى سلے ہوئے لباس ميں شامل ہونگى، اس ليے سب اہل علم كے ہاں احرام كى حالت ميں يہ اشياء پہننا جائز نہيں ہونگى.

ديكھيں: التمھيد ( 15 / 104 ).

اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" قاضى عياض رحمہ اللہ كا كہنا ہے: مسلمان اس پر متفق اور جمع ہيں كہ اس حدث ميں احرام كى حالت ميں محرم شخص كے ليے جن اشياء كى ممانعت كا ذكر ہے اس ميں قميص اور پاجامہ سے ہر سلے ہوئے لباس پر تنبيہ كى گئى ہے كہ اور پگڑى اور برانڈى كہہ كر سر چھپانے والى ہر سلى ہوئى چيز اور موزے كہہ كر ہر ستر چھپانے والى چيز شمار كى گئى ہے " انتہى

اور ابن دقيق العيد نے دوسرا اجماع اہل قياس كے ساتھ مخصوص كيا ہے، جو كہ واضح ہے.

سلے ہوئے لباس سے مراد يہ ہے كہ وہ چيز جو كسى جسم كے مخصوص حصہ كے ليے بنايا گيا ہو، چاہے بدن كے كسى ايك حصہ كے ليے ہو " انتہى

ديكھيں: فتح البارى ( 3 / 402 ).

لنگوٹ كے جواز كے قائلين حضرات نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث سے استدلال كيا ہے كہ:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے بار بردارى كا كام كرنے والوں كو لنگوٹ پہننے كى اجازت دى تھى.

اور اس سے بھى استدلال كرتے ہيں كہ عمار بن ياسر رضى اللہ تعالى عنہ بھى لنگوٹ پہنا كرتے تھے.

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا اثر امام بخارى رحمہ اللہ نے صحيح بخارى ميں بيان كرتے كہ:

" باب ہے احرام كے وقت خوشبو لگانے اور احرام باندھنے كا ارادہ كرتے وقت كيا پہنے ... عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا اپنے ہودج كو اٹھانے والوں كے ليے لنگوٹ پہننے ميں كوئى حرج نہيں سمجھتى تھيں " انتہى

ديكھيں: صحيح بخارى ( 2 / 558 ).

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس كى شرح كرتے ہوئے كہتے ہيں:

" عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا اثر سعيد بن منصور نے عبد الرحمن بن قاسم عن ابيہ كے طريق سے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا تك موصول بيان كيا ہے كہ:

" عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے حج كيا تو ان كے ساتھ ان كے دو غلام بھى تھے، جب وہ ان كا كجاوہ اٹھاتے تو ان كا كچھ ستر كھل جاتا، اس ليے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے انہيں لنگوٹ پہننے كا حكم ديا، تو وہ احرام كى حالت ميں لنگوٹ پہنا كرتے تھے.

اس ميں ابن تين كے قول: " اس سے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا ارادہ عورتيں ہيں " كا رد پايا جاتا ہے، كيونكہ عورتيں تو سلا ہوا لباس زيب تن كرتى ہيں، ليكن مرد حالت احرام ميں ايسا نہيں كر سكتے، لگتا ہے كہ يہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى رائے ہے جو انہوں نے اختيار كى تھى, وگرنہ اكثر فقھاء اور علماء تو حالت احرام ميں لنگوٹ اور سلوار و پاجامہ پہننے كى ممانعت ميں كوئى فرق نہيں سمجھتے " انتہى

ديكھيں: فتح البارى ( 3 / 397 ).

اور پھر اس كا يہ جواب بھى ديا جا سكتا ہے كہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے انہيں ضرورت كى بنا پر پہننے كى اجازت دى تھى؛ كيونكہ ان كى شرمگاہ ننگى ہو جاتى تھى، اس ليے بغير كسى ضرورت كے اسے پہننے كا استدلال كرنا جائز نہيں.

عمار بن ياسر رضى اللہ تعالى عنہ كا اثر:

ابن ابى شيبہ نے حبيب بن ابوثابت سے بيان كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے عمار بن ياسر رضى اللہ تعالى عنہ كو ميدان عرفات ميں لنگوٹ پہنے ہوئے ديكھا.

ديكھيں: مصنف ابن ابى شيبۃ ( 6 / 34 ).

يہ بھى ضرورت پر محمول كيا جائيگا، كيونكہ اخبار المدينۃ ( 3 / 1100 ) ميں ابن ابى شيبہ كى روايت ہے جو اس پر دلالت كرتى ہے كہ عمار بن ياسر رضى اللہ تعالى عنہ عثمان بن عفان رضى اللہ تعالى عنہ كى شہادت كے ايام ميں زخمى ہوئے تھے جس كى بنا پر ان كا پيشاب پر كنٹرول نہيں تھا كيونكہ اس اثر ميں " فلا يستمسك بولى " كے الفاظ ہيں كہ ميرا پيشاب نہيں ركتا تھا "

اور النھايۃ غريب الاثر ( 2 / 126 ) ميں درج ہے:

عبد خير كى حديث ميں ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے عمار رضى اللہ تعالى عنہ كو ديكھا كہ انہوں نے انڈر وئير پہنا ہوا تھا، اور انہوں نے فرمايا: مجھے مثانہ تكليف ہے "

الدقرارۃ انڈروئير يا پھر لنگوٹ كو كہا جاتا ہے جس سے صرف شرمگاہ چھپائى جاتى ہو.

اور الممثون: مثانہ كى بيمارى كےشكار شخص كو كہا جاتا ہے.

اور لسان العرب ميں درج ہے:

" عمار رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں ہے كہ انہوں نے لنگوٹ پہن كر نماز ادا كى اور فرمايا: مجھےمثانہ كى تكليف ہے " انتہى

ديكھيں: لسان العرب ( 13 / 71 ).

اگر بالفرض يہ آثار ثابت نہ بھى ہوں تو بھى دلالت كرتے ہيں كہ اس كى كوئى اصل ضرور ہے.

اور صحيح يہى ہے كہ محرم شخص كو لنگوٹ پہننےسے روكا جائيگا، اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا والى روايت كو ضرورت پر محمول كيا جائيگا، اور اس ميں لنگوٹ پہننے سے فديہ دينےكى نفى نہيں پائى جاتى.

اور اسى طرح عمار رضى اللہ تعالى عنہ كے اثر كو بھى مثانہ كى تكليف كى بنا پر لنگوٹ پہننے كو ضرورت پر محمول كيا جائيگا.

شيخ محمد امين شنقيطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے جو بيان كيا گيا ہے اس سے ظاہر يہى ہوتا ہے كہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے اپنا ہودج اٹھانے والوں كو ضرورت كى بنا پر لنگوٹ پہننے كى اجازت دى تھى، كيونكہ ان كى شرمگاہ ظاہر ہو جاتى تھى، اور يہ اس بات كى دليل ہے كہ بغير ضرورت ايسا كرنا جائز نہيں نہيں، واللہ اعلم " انتہى

ديكھيں: اضواء البيان ( 5 / 464 ).

دوم:

بار بردارى يعنى سامان اٹھانے كا كام كرنے والوں كے ليے لنگوٹ وغيرہ پہننا جائز ہے، ليكن اس ميں شرط يہ ہے كہ اگر انہيں سامانے اٹھاتے وقت شرمگاہ ظاہر ہونے كا خدشہ ہو تو پھر وگرنہ نہيں.

اور اسى طرح اس شخص كے ليے بھى انڈر وئر اور لنگوٹ پہننا جائز ہوگا جس كى چل چل كر جلد پھٹ جاتى ہو اور اس سے چلنا مشكل ہو جائے اور اسے ضرر كا خدشہ ہو.

اور اسى طرح جسے شرمگاہ پر زخم ہو اور اسے ڈھانپنے كى ضرورت ہو تو وہ بھى باندھ سكتا ہے، اور اسي طرح پيشاب كى بيمارى كا شخص بھى پہن سكتا ہے، كيونكہ يہ عمار رضى اللہ تعالى عنہ كى حالت كے مشابہ ہے، اور اس طرح كے سب حالت ميں پہنا جا سكتا ہے، ليكن ايسا كرنے والے شخص كو فديہ دينا ہوگا: يعنى وہ چھ مسكينوں كو كھانا كھلائے، يا پھر تين روزے ركھے يا پھر ايك بكرا ذبح كرے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

جو كوئى بھى تم ميں سے مريض ہو يا پھر اس كے سر ميں تكيلف ہو تو وہ فديہ ميں روزے ركھے يا صدقہ دےيا پھر قربانى كرے البقرۃ ( 196 ).

عبد اللہ بن معقل بيان كرتے ہيں كہ ميں كعب بن عجرہ رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس بيٹھا تھا اور انہيں ميں نےفديہ كے بارہ ميں دريافت كيا تو وہ كہنے لگے:

" يہ خاص كے ليے نازل ہوا تھا ليكن تمہارے ليے يہ عام ہے، مجھے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس لے جايا گيا كہ ميرے چہرے پر جوئيں گر رہى تھيں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ميرے خيال ميں تمہيں بہت زيادہ تكليف ہو رہى ہے كيا تيرے پاس بكرى ہے تو ميں نے عرض كيا: نہيں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم تين روزے ركھو يا پھر چھ مسكينوں كو كھانا كھلاؤ اور ہر مسكين كو نصف صاع دو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1721 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1201 ).

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

احرام كى حالت ميں لنگوٹ ( يا انڈر وئير وغيرہ ) پہننے كا حكم كيا ہے، اگر نہ پہنے تو ضرر كا خدشہ ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" اگر اسے ضرر اور نقصان پہنچنے كا خدشہ ہے تو پھر اس كے پہننے ميں كوئى حرج نہيں؛ ليكن اگر وہ پہن لے تو اسے چھ مسكينوں كو كھانا كھلانا ہوگا، يعنى ہر مسكين كو نصف صاع غلہ دے تو بہتر ہے "

ديكھيں: لقاءات الباب المفتوح ( 177 ) سوال نمبر ( 16 ).

مزيد آپ سوال نمبر ( 20870 ) اور ( 49033 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب