اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

کتنا وقت ملنے پر نماز پائی جا سکتی ہے؟

سوال

میری آنکھ کھلی تو میں نے ظہر کی نماز پڑھنا شروع کر دی اور ابھی میری دوسری رکعت تھی کہ عصر کی اذان ہو گئی، تو میری نماز کا کیا حکم ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جس شخص نے نماز کا وقت نکلنے سے پہلے ایک رکعت ادا کر لی تو اس نے پوری نماز پا لی، تاہم فقہائے کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ اگر ایک رکعت سے کم نماز پڑھے تو کیا اس نے نماز پا لی یا نہیں؟

تو اس بارے میں متعدد اہل علم کہتے ہیں کہ تکبیر تحریمہ  سے وقت پایا جا سکتا ہے، چنانچہ اگر وقت گزرنے سے پہلے تکبیر تحریمہ کہہ لی تو نماز کا وقت اس نے پا لیا، اب اس کی پڑھی ہوئی نماز ادا ہو گی، قضا نہیں ہو گی، یہ موقف حنفی اور حنبلی فقہائے کرام کا ہے۔

جبکہ دیگر اہل علم کہتے ہیں کہ جب تک پوری ایک رکعت وقت گزرنے سے پہلے ادا نہیں کر لیتا اس وقت تک اس کی نماز وقت پر ادا نہیں ہو گی، یہ موقف مالکی اور شافعی فقہائے کرام کا ہے، اور یہی راجح موقف ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ: (جس شخص نے نماز کی ایک رکعت پائی تو اس نے [وقت پر]نماز پا لی) بخاری: (580)، مسلم: (607)

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ: (جس شخص نے فجر کی نماز  کی ایک رکعت سورج طلوع ہونے سےپہلے پا لی تو اس نے فجر کی نماز پا لی اور جس شخص نے عصر کی نماز  کی ایک رکعت سورج غروب ہونے سےپہلے پا لی تو اس نے عصر کی نماز پا لی) بخاری: (579)، مسلم: (608)

اول الذکر اہل علم کی دلیل سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص نماز عصر کا سجدہ سورج غروب ہونے سے پہلے پا لے تو وہ اپنی نماز مکمل کرے، اورجو شخص نماز فجر کا سجدہ سورج طلوع ہونے سے پہلے پا لے تو وہ بھی اپنی نماز مکمل کر لے) متفق علیہ، اسی حدیث کے سنن نسائی  میں الفاظ یہ ہیں:  (۔۔۔تو اس نے نماز پا لی)؛ نیز یہ بھی ہے کہ جب نماز پانے کے ساتھ دیگر کوئی اور حکم بھی منسلک ہو تو نماز پانے میں رکعت یا رکعت سے کم حصہ سب برابر ہوں گے، مثلاً: جماعت پانا، مسافر شخص کا مقیم امام کی نماز پانا وغیرہ، اس حدیث کے پہلے الفاظ کا مفہوم دلیل ہے  جبکہ منطوق مفہوم سے اولی ہوتا ہے۔

مزید کے لیے آپ دیکھیں: علامہ الباجی کی کتاب: المنتقى (1/10)، اسی طرح : تحفة المحتاج (1/434)، ابن قدامہ کی : المغنی (1/228)،  اور مرداوی کی : الإنصاف (1/439)۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس مسئلے میں ایک موقف یہ بھی ہے کہ رکعت پانے سے ہی نماز پائی جائے گی؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جو شخص نماز کی ایک رکعت پا لے تو اس نے نماز پا لی) اور یہی موقف صحیح ہے، اسی موقف کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے؛ کیونکہ حدیث میں یہی موقف ظاہر ہے، وہ اس طرح کہ "جو شخص نماز کی ایک رکعت پا لے" یہ شرطیہ جملہ ہے ، اور اس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ جس نے ایک رکعت سے کم حصہ نماز کا پایا تو  اس نے نماز نہیں پائی۔۔۔
چنانچہ اس پر دیگر امور بھی مرتب ہوتے ہیں: ایک رکعت پانے پر جماعت پا لی جائے گی، چنانچہ اب یہ بتائیں کہ جماعت رکعت  سے پائی جاتی ہے یا تکبیر تحریمہ سے؟
تو صحیح موقف یہ ہے کہ نماز باجماعت رکعت پانے سے ہی پائی جاتی ہے، جیسے کہ جمعہ کی نماز بھی متفقہ طور پر ایک رکعت پانے سے ہی پائی جائے گی، تو اسی طرح جماعت بھی پوری ایک رکعت پانے سے ہی پائی جائے گی" ختم شد
"الشرح الممتع" (2/121)

اور چونکہ جس وقت مؤذن نے اذان دی تو آپ ظہر کی دوسری رکعت میں تھے  تو اس لیے آپ نے ظہر کی نماز وقت پر پا لی ۔

دوم:

سویا ہوا شخص دوران نیند معذور ہوتا ہے، چنانچہ جب وہ جاگ جائے تو بیدار ہونے کے بعد اس پر نماز پڑھنا واجب ہے، جیسے کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص نماز پڑھنا بھول جائے یا سویا رہ جائے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ وہ جب بھی نماز یاد آئے تو اسے پڑھ لے)، بخاری: (572)، مسلم: (684)

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (خبردار! سویا ہوا شخص کوتاہی نہیں کرتا، کوتاہی کا وہ شخص شکار ہے جو نماز کو دوسری نماز کا وقت آنے تک بھی نہیں پڑھتا، اگر کسی سے کوتاہی ہو جائے تو جب بھی یاد آئے نماز پڑھ لے) مسلم: (681)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب