جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

قرآن اور طب (میڈیکل )

9691

تاریخ اشاعت : 29-12-2008

مشاہدات : 29882

سوال

میں نے ایک لیکچرمیں یہ سنا کہ ڈاکٹر اور اطباء یہ دعوی کرتے ہیں کہ بہت سی دوائيں اور بیماریوں کا علاج قرآن کریم کے حقائق پر ریسرچ کرنے کے بعدایجاد کی گئيں ہيں ۔
تواس بنا پر میرا سوال یہ ہے کہ میڈیل کےمتعلق جو کچھ بھی اس وقت ہمارے سامنے موجود ہے کیا وہ قرآن کریم میں پایا جاتا ہے ، یا کہ قرآن مجید میں مزید بھی کچھ ہے جس سے ہم استفادہ کر سکتے ہیں ؟
میں یہ اس لۓ پوچھ رہا ہوں کہ میرے ایک ھندو دوست جسے ( ویگنیش ) کے نام سے پکارا جاتا ہے اس نے یہ سوال کیا آیا قرآن کریم میں کچھ ایسے امورجو کہ مہلک بیماریوں پر قابو پانے کے متعلق ہیں باقی رہ گۓ ہیں جن کا انکشاف ابھی تک نہیں ہوا ؟ ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

1 – :

اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو زندگی کے ہر معاملہ میں دین کامل دے کر مبعوث فرمایا ہے جیسا کہ ابوذر رضي اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہمیں رسول صلی اللہ علییہ وسلم نے چھوڑا تو آسمان میں اگر کوئ پرندہ بھی اپنا پر ہلاتا ہے تو اس کا بھی علم ہمیں دے کر گۓ ۔ مسند احمد ( 20399 ) دیکھیں مجمع الزوائد ( 8 / 263 ) ھیثمی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں کہ اسے طبرانی نے روایت کیا اورمحمدبن عبداللہ بن یزيد المقری جو کہ ثقہ ہے کے علاوہ اس کے رجال صحیح ہيں ۔

جو اسلام اس لۓ آیا کہ لوگوں کی زندگی کی تمام حاجات وضروریات کو پورا کرے ۔

2- :

احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جو کچھ آیا ہے وہ قرآن کے بیان کی تکمیل ہے ، اورمسلمانوں کے ہاں یہی دو مصدر اساسی ہیں ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالی نے کوئ ایسی بیماری نہیں اتاری مگر اس کا علا ج اور دوائ بھی اتاری ہے ۔

ابوھریرہ رضی اللہ تعالی بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( اللہ تعالی نے جو بھی بیماری اتاری ہے اس کی شفااور علاج بھی اتارا ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5678 )

3– :

سائل نے جو یہ ذکر کیاہے کہ کچھ مسلمانوں نے بہت سے علاج قرآن کریم سے ایجاد کیے ہیں ، تو اس کے متعلق ہم یہ کہیں گے کہ اس میں کچھ مبالغہ آرائ سے کام لیا گیا ہے ۔

تو قرآن کریم کوئ علم طب اور نہ ہی جغرافیا اور بیالوجی کی کتاب نہیں ہے جیسا کہ بعض مسلمان یورپیوں کے سامنے کہتے پھرتے ہیں بلکہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو کہ لوگوں کے لۓ رشد وھدایت کا منبہ ہے اوراس کا سب سے بڑا معجزہ اس کی بلاغت اور قوت معانی ہے جو کہ اس کا اصلی اعجاز ہے ، تو اللہ تعالی نے یہ کتاب اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسے دور میں نازل فرما‎ئ جس میں فصاحت و بلاغت بہت اونچے درجے پر تھی تو اس وقت یہ کتاب انہیں عاجز کرنے کے لۓ نازل کی گئ کہ یہ کسی انسان کی طرف سے نہیں بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے آئ ہے ۔

تو اس میں کوئ تعجب نہیں اور نہ ہی اس دین میں کوئ نئ چیز ہے ، تودیکھ لیں موسي علیہ السلام کے نشانیاں اور معجزات – لاٹھی اور ھاتھ کا چمکنا – اسی جنس میں سے تھیں جو کہ اس وقت جادو کی شکل میں پھیلا ہوا تھا ، اور اسی طرح موسی علیہ السلام کی دوسری نشانیاں – مردوں کو زند کرنا ، اور برص زدہ اور کوڑھ کے مریض کو صحیح کرنا – یہ بھی اسی جنس میں سے تھیں جس میں ان کی قوم ماہر تھی اور ان میں پھیل چکی تھی جسے طب کا نام دیا جاتا ہے ۔

تو اس لۓ ہم یہ کہیں گے کہ قرآن مجید میں جو سب سے بڑی اور عظیم چیز ہے وہ اس کی فصاحت وبلاغت ہے ، تو آج تک اس پر غور فکر اور تدبر کرنے والے والے علماء کے لۓ یہ واضح ہورہی ہے ۔

اور اس کا معنی یہ نہیں کہ اس میں فصاحت وبلاغت کے علاوہ کچھ اور نہیں بلکہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں انسانی جسم کی ترکیب اور اس کے اعضاء اور اس کے پیدائشی مراحل اور بعض طبعی مظاہر اوراس کے علاوہ اوراشیاء کا بھی ذکر فرمایا ہے ۔

اور سائل نے جو علاج کے متعلق بات کی ہے ، تو اس کے بارہ میں ہم یہ کہیں گے کہ قرآن کریم تو مومنوں کے دلوں اور بدنوں کی بیماریوں کے لۓ شفا ہی شفاہے ، اور اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ( شھد ) کا ذکر کیااور یہ بیان کیا ہے کہ یہ لوگوں کے لۓ شفا ہے ،اور اسی طرح اصل چیز صحت اور امراض سے بچاؤ کا بھی ذکر فرمایاہے ۔

تو جو اس لحاظ سے یہ کہے کہ قرآن کریم میں بہت ساری ادویات کا ذکر کیا گیا ہے لیکن اس کے علاوہ اورکچھ صحیح نہیں بلکہ اس میں بعض مسلمانوں نے مبالغہ ارائ سے کام لیا ہے ، اور قرآن کریم کوئ طب کی کتاب نہيں ، اورپھر اس وقت ایسے ایسے امراض پیدا ہو چکے ہیں جو کہ پہلے موجود نہیں تھے تو ان کاعلاج امراض کے وجود سے قبل ہی کیسے آۓ گا – سائل کے قول کے اعتبارسے - ؟ ۔

4 - :

ا – قرآن کریم کے شفا ہونے پر ذیل میں چند ایک آیات پیش کی جاتی ہیں :

اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

یہ قرآن جو ہم نازل کررہے ہیں مومنوں کے لۓ سرا سر شفا اوررحمت ہے الاسراء ( 82 ) ۔

ابن قیم رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ :

اللہ تعالی کا یہ فرمان : یہ قرآن جو ہم نازل کررہے ہیں مومنوں کے لۓ سرا سر شفا اوررحمت ہے اور صحیح یہ ہے کہ یہاں پر ( من ) جنس کے بیان کے لۓ ہے نہ کہ تبعیضیہ اور اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ :

اے لوگوں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصحیت اور جو کچھ سینوں میں روگ ہے اس کی شفاآئ ہے

تو قرآن کریم تمام قلبی اور بدنی بیماریوں کا علاج اور شفاہے اور اسی دنیا وآخرت کی بھی دوا ہے ، تو ہر ایک اس شفا کا اہل بھی نہیں اور نہ ہی اسے توفیق ملتی ہے ، لیکن جب بیمار آدمی علاج کرنے میں صحیح توجہ سے اس علاج پر عمل کرے اور اسے صدق دل اور ایمان ویقین اور اسے قبول اور پختہ اعتقاد اور اس علاج کی شروط پوری کرتے ہوۓ اپنی بیماری پر رکھے تو پھر اس کے آگے بیماری کبھی ٹھر ہی نہیں سکتی ۔

پھر یہ بیماری اس کلام اللہ کے آگے کیسے ٹھر سکتی ہے جو اگر پہاڑوں تر اتارا جاتا تو وہ ریزہ ریزہ ہوجاتے ، یا زمین پر اتارا جاتا تو اسے وہ ٹکڑے کردیتا ، تودلوں اور بدنوں کا کوئ ایسا مرض نہیں جس کے متعلق قرآن کر یم راہنمائ نہ کرے اور اس کے سبب اور اس سے بچاؤ کا طریقہ نہ بتاۓ لیکن یہ سب اس کے لۓ ہے جسے اللہ تعالی کتاب اللہ کی سمجھ عطافرماۓ ۔زاد المعاد ( 4 / 352 )

ب : اور قرآن کریم میں روحوں اور دلوں کا علاج ہے تو جواس پر صحیح طور پر عمل کرے تو اس کے لۓ قرآن کریم امراض اور آفات سے بچاؤ اور انہیں اس کے بدن سے دوکردے گا ، تو اس لحاظ سے بہت ساری امراض کا علاج اور ان کے لۓ شفا ہے ۔

ابن قیم رحمہ اللہ تعالی بیان فرماتے ہیں کہ :

ہم نے ذاتی طور پر اور ہمارے علاوہ دوسروں نے بھی اس کا تجربہ کیا ہے کہ یہ ایسا کام کرتا ہے جو کہ ادویہ حسیہ سے نہیں ہوۓ بلکہ اطباء کے ہاں تو ادویہ حسیہ اس کے سامنے ھیچ ہیں ، اور یہ حکمت الہیہ کے قانون سے خارج نہیں بلکہ اس میں داخل ہے ، لیکن اسباب کئ ایک قسم کے ہیں تو جب دلی طور پر اللہ تعالی کے ساتھ رابطہ اور لگاؤ ہو گا جوکہ بیماری اور دوائ دونوں کا خالق اور طبیعتوں کا مدبر اور اس میں جس طرح چاہے تصرف کرنے والا ہے تواس دل کے لۓ کچھ ایسی دوائیاں اور علاج بھی ہیں جو جو اللہ تعالی سے اعراض کرنے والے کے دل سے دور ہیں ۔

یہ تو سب کے علم میں ہے کہ جب روح قوی اور طاقتور ہوتو نفس اور طبیعت بھی قوی ہو کر بیماری اور سختی کو دورکرنے میں ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہیں ، تو اس کا انکار اس شخص سے کیسے کیا جاسکتا ہے جس کی طبیعت اور نفس اللہ تعالی کی محبت وانس اور اس کے ذکر سے قوی ہو اور مکمل طور پر سارے اعضاء کو اللہ تعالی کے مطیع کیۓ رکھے اور اللہ تعالی پر توکل کرے تو اس کے لۓ یہ سب سے اعلی اور بڑی دوائ اور علاج ثابت ہوگا اور اسے وہ قوت اور طاقت پہنچے گي جو سب کی سب بیماریوں اور تکلیفوں کو ختم کرکے رکھ دے گي ، اور اس کا انکار تو صرف وہی شخص کرے گا جو کہ اجھل الناس اوراللہ تعالی سے بہت ہی زیادہ دور رہنے والا اور حقیقت انسانی سے بھی دور ہو اور اس کے ساتھ ساتھ کثیف النفس بھی ہو ۔زاد المعاد ( 4/12 )۔

ج : اور قرآن کریم میں سورۃ فاتحۃ بھی ہے جو کہ امراض کا علاج ہے ۔

ابو سعید رضي اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کچھ لوگ سفر پر گۓ اور ایک عرب قوم کے ایک قبیلہ کے مہمان بنے تو انہوں مہمان نوازی کرنے سے انکار کردیا ، ( اللہ کا کرنا ایسا ہوا ) کہ قبیلہ کے سردارکو کسی چیز نے ڈس لیا تو انہوں نے ہر قسم کا علاج کردیکھا لکین کوئ فائدہ نہ ہوا ، تو کچھ لوگوں نے کہا کہ اگرتم اس قافلے والوں کے پاس جا‎ؤ تو ہو سکتا ہے ان کےپاس کچھ ہو ، تو وہ لوگ ان کے پاس آۓ اور کہنے لگے اے قافلہ والو ہمارے سردار کو کسی چیز نے ڈس لیا ہے اور ہم ہر قسم کا علاج کرچکے ہیں لیکن اسے کو‎ئ افاقہ نہیں ہوا تو کیا تمہارے پاس کوئ علا ج ہے ؟ تو صحابہ میں سے ایک نے کہا جی ہاں اللہ تعالی کی قسم میں دم کرتا ہوں ، لیکن ایک بات ہے اللہ تعالی کی قسم ہم نے تم سے مہمان نوازي کا تقاضا کیا تو تم نے انکار کیا تو اب میں بھی اس وقت تک دم نہیں کروں گا جب تک تم اس کا معاوضہ نہیں دیتے ، تووہ بکریوں کا ایک ریوڑ دینے پر رضامندہوگۓ ، تو وہ صحابی رضي اللہ تعالی عنہ ان کے ساتھ گۓ اور اس پر ( الحمد لله رب العالمين ) پڑھ کر دم کیا تو وہ صحیح اور ہشاش بشاش ہوگيا گویا کہ اسے کسی چیز نے جگڑ رکھا ہو وہ اب وہ اس سے آزاد ہوا ہو اور بغیرکس تکلیف کے چلنے پھرنے لگا ۔

ابوسعید رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ : انہوں نے اپنے اس وعدہ کو پورا کرتے ہوۓ بکریاں دے دیں ، صحابہ میں سے ایک نے کہا کہ اسے تقسیم کرو ، تو جس نے دم کی تھا وہ کہنے لگا یہ کام اس وقت نہ کرو جب تک کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر اس کا بتا نہ لیں اور پھر جو وہ حکم دیں اس پر عمل کریں ۔

صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آۓ اور اس کا تذکرہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہنے لگے کہ تجھے کیسے پتہ چلا کہ یہ دم ہے ؟ پھر فرمایا تم نے صحیح کام کیا ہے اسے تقسیم کرو اور اس میں اپنے ساتھ میرا بھی حصہ رکھنا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے ۔

صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2156 ) صحیح مسلم ( 2201 ) ۔

قلبۃ : یہ ایک بیماری یا ایسی درد ہے جس سے انسان لوٹ پوٹ ہونے لگتا ہے ۔

ابن قیم رحمہ اللہ تعالی سورۃ فاتحۃ کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ :

اور جسے توفیق ملے اور اور وہ نور بصیرت کی بصارت سے اس سورۃ کو دیکھے تو اسے اس سورۃ کے رازوں اور اس میں جو اللہ تعالی کی تو حید اور اللہ تعالی کی ذات اور اسماء وصفات کی معرفت بیان کی گئ ہے وہ ملے گی اور اسی طرح شریعت اور تقدیر اور روزقیامت کا ثبوت مہیا ہوگا اور اسی طرح اسے توحید ربوبیت اور الوھیت کا بھی علم اور یہ بھی پتہ چلے گا کہ اللہ تعالی پر ہی مکمل توکل اور سب معاملات بھی اسی کے سپرد کۓ جائيں اور سب قسم کی حمدوثنا اور سارے کا سارا امرو حکم اسی کی ہے اسی کے ھاتھ میں ہر قسم کی بھلائ اور اسی کی طرف سب معاملے پلٹتے ہیں ۔

اور وہ ھدایت جس میں دارین کی سعادت پنہاں ہے وہ بھی اسی سے طلب کی جاۓ ، اور دارین میں مصلحتوں کا حصول اور فساد سے بچنے کا علم ہوگا اور مکمل اور مطلق انجام اور مکمل نعمتیں اس کے ساتھ معلق ہیں اس کی تحقیق پر موقوف ہیں ۔

بہت سی دوائیوں اور علاج اور دم سے اس نے غنی کردیا ہے ان کی ضرورت نہیں رہی ، اور اس کے ساتھ بھلائ اورخیر کے دروازے کھلتے اور شرکے دروازے بند ہوتےہیں ۔ زاد المعاد ( 4 / 347 ) ۔

د :

اور اسی طرح قرآن کریم میں حفظان صحت کے اصول بھی ذکر کۓ گۓ ہیں :

ابن قیم رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں :

طب کے تین اصول ہیں : حمیۃ یعنی بچاؤ ، حفظان صحت ، ضرر اور نقصان دہ مادہ کو باہر نکالنا ۔

اوراللہ تعالی نے ان تینوں کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت کے لۓ اپنی کتاب میں تین جگہ پر جمع کیا ہے :

اللہ تعالی نے مریض کو ضرر اور نقصان ہونے کی صورت میں پانی استعمال کرنے سے بچنے کا کہتے ہوۓ فرمایا :

اوراگر تم بیمار ہو یا سفرمیں ہو یا تم میں سے کوئ قضاۓ‎ حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اورتمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرلو النساء ( 43 ) اور سورۃ المائدۃ ( 6 ) ۔

تو مریض کے بچا‎ؤ کے لۓ اسی طرح تیمم مباح قرار دیا جس طرح کہ پانی نہ ملنے والے کے لۓ مباح ہے ۔

اور حفظان صحت کے متعلق فرمایا :

لکین جو تم میں سے مریض ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی کو پورا کرے البقرۃ ( 183 ) ۔

تو مسافرکی حفظان صحت کے لۓ رمضان میں روزہ نہ رکھنا مباح قرار دیا تا اس پر روزہ سفر میں مشقت نہ بن جاۓ جس کی وجہ سے سفرميں اس کی قوت اورصحت میں کمزوری واقع ہو ۔

اور محرم کے لۓ سرمنڈا کر ضرر والی چیز کو دور کرنے اور استفراغ کا حکم دیتے ہوۓ فرمایا :

اور تم میں سے جو بیمار ہو ، یا اس کے سر میں کوئ تکلیف ہو ( جس کی وجہ سے سر منڈا لے ) تو پر فدیہ ہے خواہ روزے رکھ لے خواہ صدقہ دے دے یا پھر قربانی کرے البقرۃ ( 196 ) ۔

تو اللہ تعالی نے مريض اوروہ محرم جس کے سر میں کوئ تکلیف ہواسے سرمنڈا کر اس مادہ فاسدہ اورردئ قسم کے بخارات جس کی بنا پر جؤئيں پیداہوتی ہیں سے استفراغ کا حکم دیاہے ، جیسا کہ کعب بن عجرۃ رضي اللہ تعالی عنہ کےساتھ ہوا ، یا پھر اس سے کوئ اور بیماری پیدا ہوتی ہو ۔

تو طب کے یہ ہی تین اصول اور قاعدے ہیں ، تو اللہ تعالی نے ہرجنس سے اس کی صورت ذکرفرماتے ہوۓ اپنے بندوں پرجو نعمتیں کی ہیں اس پر تنبیہ فرمائ ہے اور اس سے بچاؤ اوران کی حفظان صحت اورفاسدہ مواد کے استفراغ کا کہا ہے جو کہ اس کی اپنے بندوں پر رحمت و مہربانی اور شفقت ہے اور اللہ تعالی مہربان اور رحمت کرنے والا ہے ۔ زاد المعاد ( 1/ 164 - 165 ) ۔

ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

ایک مرتبہ میں نے مصرمیں اطباء کے ایک رئیس سے گفتگو کی تووہ کہنے لگا : اللہ تعالی کی قسم اس فائد کوجاننے کے لۓ اگر میں یورپ کا سفر بھی کرتا تو وہ بھی کم تھا ، یا اس نے جس طرح کہا ۔ اغاثۃ اللہفان ( 1 / 25 ) ۔

ھـ : قرآن کریم میں شھد اور اس کے شفاہونے کا ذکر ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

ان کےپیٹ سے رنگ برنگ کا مشروب نکلتا ہے جس کے رنگ مختلف ہیں اور جس میں لوگوں کے لۓ شفا ہے النحل ( 69 ) ۔

ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پینے میں بھی ایسا اکمل اور کامیاب طریقہ تھا جس میں حفظان صحت کے اصول کو مد نظر رکھا گیا ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم شھد میں ٹھنڈا پانی ملا کر پیتے تھے ، تو اس میں جو صحت کی حفاظت ہے اسے ماہر طبیب ہی جانتے ہیں ۔

اور اسی طرح نہار منہ شھد کا استعمال بلغم کو خارج کرتا اور معدہ کے رؤں کی صفائ اور معدہ کی چپک میں زیادتی کرتا اوراس سے فضلات کو دور کرتا ، اور اس میں اعتدال پیدا کرتا اور سدوں کو کھولتا ہے ۔

اور اسی طرح مثانہ اور گردوں میں بھی یہی عمل دھراتا ہے ، اور معدہ میں داخل ہونے والی جتنی بھی میٹھی اشیاء ہیں ان میں سب سے زیادہ نفع مند شھد ہی ہے ۔

اور صفراوی طبیعت کے مالک کو بخار کی حالت میں نقصان دے سکتا ہے بخاراور صفراء کی حدت میں اضافہ کرتا اور ہو سکتا ہے اسے ھیجان انگیز بنا دے ، تو ایسی طبیعت کے مالک افراد کے لۓ‌ اس وقت فا ئدہ مند ہو گا جب شھد میں سرکہ ملا لیا جاۓ تو ان کے لۓ بہت ہی زیادہ نفع مند ثابت ہوگا ،اور چینی وغیرہ کے شربت پینے سے شھد پینا بہت زیادہ مفید ہوگا اور خاص کر ان لوگوں کے لۓ جوکہ اس قسم شربت پینے کے عادی نہ ہوں ، اورنہ ہی ان کی طبیعت ان سے مانوس ہو تو اگر وہ یہ مشروبات پی بھی لیں تو انہیں شھد کے شربت کی طرح تھوڑا سا بھی فائد نہیں ہوگا جس طرح کہ شھد سے ہوتاہے ،اور اس میں اصل چیز عادت ہے جو کہ اصول کو بناتی اور گراتی ہے ۔

اور شھد میں جب دو صفتیں جمع ہوجائيں یعنی شھد کی مٹھاس اور بارد پن تو بدن کے لۓ اس سے زیادہ بہتر اور مفید کوئ چیز نہیں اور اس سے بڑھ کر کوئ اور صحت کا محافظ نہیں ہے ، اور روح ، قوی اور دل اس کو بہت پسند کرتا اور جب پھر اس میں یہ دو خصلتیں ہوں تو پھر غذائيت سے بھر پوراور اسے اعضاء تک بہت احسن طریقے سے پہنچاتاہے ۔ زادالمعاد ( 4 / 224- 225 )

ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

اور شھد میں بہت عظیم فائدے ہیں :

انتڑیوں اور رگوں وغیرہ کی صفائ کرتا ہے ، کھانے اور لیپ کرنے سے رطوبات کی تحلیل ہوتی ہے ، بوڑھوں اور بلغم والوں اورجن کا مزاج ٹھنڈااور تر ہوان کے لۓ نافع ہے ، یہ طبیعت کے لۓ ملین اور عضلات کو طاقت بخشتا ہے ، اورناپسندیدہ ادویات کی کراہت کو ختم کرتا ، سینے اور جگر کی صفا‏ئ کرتا ہے ، مدربول اوربلغمی کھانسی کے لۓ مفید ہے ۔

اور جب شھد عرق گلاب میں گرم کرکے پیا جاۓ تو افیون پینے اور جانوروں کی چیڑ پھاڑ سے نفع دیتا ہے ، اور اگر پانی میں شھد ملا کر پیا جاۓ تو باؤلے کتے کے کاٹے ہوۓ کو اورہلاک کردینے والی جڑی بوٹی کے کھاۓ ہوۓ کو فائدہ دیتا ہے ۔

اور اگر شھد میں تازہ گوشت ڈال دیا جاۓ تو وہ تین مہنے تک تازہ رہتا ہے ، اور اسی طرح اگر اس میں کھیرے اور ککڑی ، کدو اور بینگن اور سبزی وغیرہ ڈال دیا جاۓ تو اس کو چھ ماہ تک تازہ رکھتا ہے ، اور اسی طرح میت کے بدن کی بھی حفاظت کرتااور اسے حافظ اور امین کا نام دیا جاتا ہے ۔

اوراگر شھد کو جؤوں والے بدن اور بالوں پر ملا جاۓ تو انہیں مارڈالتا اوران کے انڈوں کا خاتمہ کردیتا ہے اور بالوں کو لمبا اور نرم اور حسین بناتا ہے ، اور اگر اسے آنکھوں میں ڈالا جاۓ تو بینائ کو صاف کرتا ہے ، اور اگر دانتوں پر ملا جاۓ تو انہیں صفید اور صاف کرتا اور دانتوں اور مسوڑھوں کی حفاظت کرتا ہے ، اور رگوں کا منہ کھولتا اورمدر حیض ہے ۔

اس کا نہار منہ چاٹنا بلغم کو خارج کرتا اور معدہ کے رؤں کی صفائ اور اس سے فضلات کو دور کرتا ، اور اس میں اعتدال پیدا کرتا اور سدوں کو کھولتا ہے ،اور اسی طرح مثانہ اور گردوں میں بھی یہی عمل دھراتا جگراور تلی کے سدوں کو ہر میٹھی اشیاء سے کم نقصان دہ ہے ۔

اور یہ شھد ان سب کچھ کے ساتھ ساتھ خراب ہونے سے مامون اور قلیل الضرر ہے ، صفراوی طبیعت کے لوگوں کے لۓ بخار کی حالت میں ان کے لۓ نقصان دہ ہے لیکن یہ نقصان اسے سرکہ میں ملا کر استعمال کیا جاۓ تو دور ہو جاتا ہے ، تو اس طرح اس حالت میں بھی بہت ہی مفید ہوگا ۔

تو یہ شھد غذا کےساتھ غذا اور دواؤں کے ساتھ ایک دوائ اور شربت میں سے ایک شربت اور مٹھائ میں ایک مٹھائ اور طلاء میں سے ایک طلاء کی حیثیت رکھتااور مفرحا ت کے ساتھ ایک مفرح ہے ، تو اس معنی میں کوئ اور چیز ایسی نہیں جو کہ ہمارے لۓ اس سے افضل پیدا کی گئ ہو اور نہ ہی اس کی مثل اور نہ ہی اس قریب کی ۔

قدماء تو اس پر ہی بھروسہ کرتے تھے بلکہ قدماء کی کتب میں تو چینی اور شوگر کا نام تک نہیں ملتا اور نہ ہی اسےوہ جانتے تھے کیونکہ یہ تو ابھی ایک نئ ایجاد ہے ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے پانی کےساتھ نہار منہ استعمال کیا کرتے تھے ، جس میں ایک ایسا راز اور سر ہے جو کہ ایک ذہین و فطین ہی سمجھ سکتا ہے ۔ زاد المعاد ( 4 / 33-34 ) ۔

واللہ تعالی اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب