کیا کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کے سودے پر سودا کر سکتا ہے؟

سوال: 97487

کسی مسلمان کے لیے یہ حرام ہے کہ وہ اپنے بھائی کے سودے پر سودا کرے، لیکن کیا اس طرح کا سودا شرعاً درست بھی ہوتا ہے یا نہیں؟

جواب کا متن

ہمہ قسم کی حمد اللہ تعالی کے لیے، اور دورو و سلام ہوں اللہ کے رسول پر، بعد ازاں:

اول:
کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کی فروختگی پر فروختگی کرے، اور نہ خریداری پر خریداری کرے۔ کیونکہ صحیح بخاری و مسلم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: ’’آدمی اپنے بھائی کے سودے پر سودا نہ کرے‘‘ (بخاری: 2139، مسلم: 1412)۔

اس ممانعت کی حکمت یہ ہے کہ کسی کے سودا ہو جانے کے بعد کوئی اور وہی سودا مہنگے داموں خریدے یا سستے داموں بیچے تو اس سے مسلمانوں کے درمیان عداوت اور کینہ پیدا ہوتا ہے۔ اور جو چیز بھی مسلمانوں میں عداوت اور بغض کا باعث بنے وہ حرام ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ترجمہ:’’شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے۔‘‘ (المائدہ: 91)

اللہ تعالیٰ نے خمر اور جوا حرام کرنے کی علت یہی قرار دی کہ اس سے عداوت اور دشمنی پیدا ہوتی ہے۔

دوم:
اگر کوئی شخص اپنے بھائی کے سودے پر سودا کر لے تو کیا یہ عقد صحیح ہو گا یا نہیں؟ اس مسئلے میں اہلِ علم کے دو موقف ہیں:

  1. بعض علماء کے نزدیک یہ سودا سرے سے درست ہی نہیں۔ یہی موقف حنابلہ کا ہے۔
  2. بعض نے کہا کہ سودا تو ہو جائے گا لیکن ایسا کرنے والا گناہگار ہو گا۔ یہ امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف ہے۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ ’’المغنی‘‘ (4/149) میں لکھتے ہیں:
’’اگر کسی نے خلاف ورزی کر کے عقد کر لیا تو یہ بیع باطل ہے؛ کیونکہ جس چیز سے روکا گیا ہو وہ فاسد ہوتی ہے۔ لیکن ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ یہ سودا درست مانا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اصل حرمت تو اس بات کی ہے کہ دوسرا شخص خریدار کو اپنی چیز پیش کرے یا ایسی بات کرے جس کی وجہ سے پہلا سودا فسخ ہو جائے۔ یہ سب کچھ عقد سے پہلے کے معاملات ہیں، نہ کہ خود عقد کی ذات میں کوئی خرابی۔ اب اگر شریعت نے اس فسخ کو، باوجود اس کے کہ اس میں نقصان ہے، صحیح تسلیم کیا ہے تو وہ نیا سودا جو دراصل مصلحت پر مبنی ہے، بدرجہ اولیٰ صحیح ہونا چاہیے۔ مزید یہ کہ یہ ممانعت دراصل دوسرے مسلمان کے حق کے تحفظ کے لیے ہے، نہ کہ عقد کی حقیقت کو باطل قرار دینے کے لیے۔ اس لیے یہ صورت دھوکے والے سودے (بیع نجش) کے مشابہ ہے: یعنی گناہ تو ہے مگر عقد درست مانا جاتا ہے۔ اور یہی امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف ہے۔‘‘ ختم شد

علامہ مرداوی ’’الإنصاف‘‘ (4/331) میں لکھتے ہیں:
’’آدمی کا اپنے بھائی کے سودے پر سودا کرنا جائز نہیں۔ مثلاً: کوئی چیز دس میں خریدی گئی تو دوسرا کہے: میں تمہیں نو میں دے دیتا ہوں۔ اسی طرح خرید پر خرید بھی جائز نہیں، جیسے کوئی چیز نو میں بیچی گئی ہو تو دوسرا کہے: میں تمہیں اس کے دس دیتا ہوں تاکہ وہ پہلا عقد فسخ کر دے اور اس دوسرے کے ساتھ سودا کر لے۔ ان دونوں صورتوں کے منع ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یہ صورت صرف دو مواقع پر متصور ہے: ایک خیارِ مجلس میں اور دوسرا خیارِ شرط میں۔ جبکہ عقد سے پہلے تو محض بھائی کی قیمت پر قیمت لگانے میں شامل ہو گا جیسے کہ اس کی تفصیلات آگے آ رہی ہیں۔

پھر اگر ایسا کر لیا جائے تو کیا یہ دوسرا سودا درست ہو گا یا نہیں؟ اس بارے میں دو رائے ہیں، اور یہ دونوں روایتیں ’’الفروع‘‘ اور دیگر کتب میں مذکور ہیں۔ ’’الہدایہ‘‘، ’’المحرر‘‘، ’’الرعایتین‘‘، ’’الحاوین‘‘ اور ’’المستوعب‘‘ میں ان دونوں کو بغیر ترجیح ذکر کیا گیا ہے:

  • پہلی رائے یہ ہے کہ دوسرا سودا درست نہیں ہو گا، یعنی یہ باطل ہے، اور یہی مذہب ہے۔ ’’التصحیح‘‘ میں بھی اسی کو صحیح قرار دیا گیا ہے۔ ’’المذہب‘‘ اور ’’مسبوک الذہب‘‘ میں کہا گیا ہے: ظاہر مذہب کے مطابق یہ بیع باطل ہے۔ ’’الفروع‘‘ میں بھی کہا گیا ہے کہ یہی اصح ہے کہ یہ صحیح نہیں۔ ’’الرعایۃ الکبری‘‘ میں لکھا ہے کہ دونوں میں سے مشہور یہی ہے کہ یہ باطل ہے۔ اسی کو امام ابوبکر اور دیگر نے اختیار کیا ہے۔ ’’الخلاصۃ‘‘، ’’الوجیز‘‘ اور ’’تذکرۃ ابن عبدوس‘‘ میں بھی اسی پر جزم کیا گیا ہے، اور ’’الشرح‘‘ اور ’’الکافی‘‘ میں بھی اسی کو ترجیحا پہلے ذکر کیا گیا ہے۔
  • دوسری رائے یہ ہے کہ بیع درست ہو گی۔ قاضی اور ابو الخطاب نے یہی رائے اختیار کی ہے۔ اور شیخ تقی الدین رحمہ اللہ نے فرمایا: اپنے بھائی کی خریداری پر خریداری کرنا حرام ہے، لیکن اگر ایسا ہو جائے تو پہلے خریدار کو حق ہے کہ وہ بائع سے وہی چیز واپس لے اور اگر زائد قیمت دی گئی ہو تو وہ بھی لے، یا اس کے عوض میں کوئی اور بدل لے۔‘‘ ختم شد

مزید کے لیے دیکھیں: (الموسوعۃ الفقہیۃ 9/214)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’مصنف نے جب کہا کہ : (عقد باطل ہو گا) تو یہ صراحت ہے کہ ایسا عقد باطل ہے۔ لیکن بعض علمائے کرام کہتے ہیں کہ عقد صحیح ہے؛ کیونکہ ان کے مطابق ممانعت معقود علیہ کی ذات سے متعلق نہیں بلکہ ایک خارجی امر سے ہے، اور وہ ہے مسلمان کی حق تلفی۔ لہٰذا عقد حرام تو ہو گا لیکن صحیح ہو گا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر وہ شخص جس کے سودے پر کوئی اور شخص سودا کر رہا تھا اجازت دے دیتا تو عقد صحیح ہو جائے گا۔ اس سے واضح ہوا کہ حرمت اصل عقد پر نہیں بلکہ ایک خارجی سبب کی وجہ سے ہے۔ لہٰذا عقد صحیح ہو گا مگر گناہ بھی ہو گا۔

لیکن فقہی موقف کے مطابق فتویٰ دینا انتظامی حکمت کے طور پر ہے تاکہ لوگوں پر زیادتی روکی جا سکے، اور یہ اچھی بات ہے۔‘‘ ختم شد
ماخوذ از: الشرح الممتع ،(8/206)

واللہ اعلم

حوالہ جات

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل خبرنامہ

اسلام سوال و جواب کی میلنگ لسٹ میں شامل ہوں

phone

اسلام سوال و جواب ایپ

مواد تک فوری رسائی اور آف لائن مطالعہ کے لیے

download iosdownload android