الحمد للہ.
سوال ميں جس فعل كا بيان ہوا ہے وہ قبيح ترين افعال ميں شمار ہوتا ہے، اور فى ذاتہ حرام ہے، جس طرف لے جاتا ہے وہ بھى حرام ہے، فى ذاتہ اس طرح حرام ہے كہ عورت سارى كى سارى ستر ہے، اور ابتدائى طور پر ہى اس كى تصوير بنانى جائز نہيں، حتى كہ اگر وہ اپنا چہرہ اور ہاتھ بھى ظاہر نہ كرے، تو پھر اگر اس سے زيادہ اعضاء ظاہر ہوں تو كس طرح جائز ہو سكتا ہے؟!
اور جب اس كى شرمگاہ وغيرہ سميت بےلباس تصوير بنائى جائے تو بلا شك و شبہ يہ گناہ و سزا ميں اور بھى زيادہ قبيح عمل ہوگا.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا پاسپورٹ وغيرہ ميں عورت كے چہرے كى تصوير كا پردہ ہے يا نہيں ؟
اور كيا اگر عورت تصوير نہ اتروائے تو كيا اپنى جانب سے كسى دوسرے كو حج پر بھيجنا جائز ہے، اور سبب اس جواز كو منع كرتا ہے يا نہيں ؟
اور كتاب و سنت نبويہ ميں عورت كے لباس كى حد كيا ہے ؟
كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:
" عورت كے ليے نہ تو پاسپورٹ كے ليے اور نہ ہى كسى اور كے ليے چہرے كى تصوير اتروانى جائز ہے؛ كيونكہ چہرہ ستر ميں شامل ہے؛ اور اس ليے بھى كہ پاسپورٹ ميں اس كى تصوير كا ہونا فتنہ و فساد كے اسباب ميں شامل ہوتا ہے.
ليكن اگر وہ اس كے بغير فريضہ حج كى ادائيگى كے ليے نہيں جا سكتى تو پھر اس كے ليے تصوير اتروانے كى اجازت ہے تا كہ فريضہ حج ادا كر سكے، اور اپنى جانب سے نيابتا كسى اور كو حج كروانا جائز نہيں.
اور كتاب و سنت كے دلائل كےمطابق عورت سارى كى سارى ستر اور پردہ ہے، اس ليے عورت پر واجب ہے كہ وہ غير محرم سے اپنا سارا جسم چھپائے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور وہ اپنى زينت و زيبائش كو ظاہر نہ كريں، مگر اپنے خاوندوں كے ليے، يا اپنے باپ كے ليے، يا خسر كے ليے النور ( 31 ).
اور دوسرے مقام پر ارشاد ربانى ہے:
اور جب تم نبى كى بيويوں سے كوئى چيز طلب كرو تو پردہ كے پيچھے سے طلب كرو، يہ ان كے اور تمہارے دلوں كے ليے پاكيزگى كا باعث ہے الاحزاب ( 53 ).
الشيخ عبد العزيز بن باز، الشيخ عبد اللہ بن غديان، الشيخ عبد اللہ بن قعود.
اور سوال نمبر ( 13342 ) كے جواب ميں ہم شيخ صالح الفوزان كا قول نقل كر چكے ہيں كہ:
عورت كى تصوير مطلق طور پر جائز نہيں، كيونكہ اس ميں فتنہ و شر ہے جس كے نتيجہ ميں فى ذاتہ تصوير كى حرمت اور زيادہ ہو جاتى ہے، اس ليے نہ تو سفر كے ليے اور نہ ہى كسى اور مقصد كے ليے عورت كى تصوير اتروانى جائز ہے، كبار علماء كميٹى كے علماء كى جانب سے اس كى حرمت كے متعلق قرار جارى ہو چكى ہے. انتہى.
اور خاوند كے ليے بيوى كى ننگى تصوير اتارنى جائز نہيں كہ وہ اس كا خاوند ہے، اور يہ چيز اس كے ليے كسى قبيح چيز كو مباح نہيں كر سكتى اور نہ ہى ا سكا بيوى سے دور رہنا كوئى عذر بن سكتا ہے، كيونكہ عورت كى تصوير شروع ہى سے حرام ہے، اس كےمتعلق ہم علماء كرام كا فتوى بھى بيان كر چكے ہيں، اور اس ليے بھى كہ اس سے بہت زيادہ خرابياں پيدا ہونا ممكن ہيں، اور بےلباس اور ننگى اور بے پرد بيوى كى تصوير ركھنے كے نتيجہ ميں درج ذيل خرابياں پيدا ہونا ممكن ہيں:
1 - خاوند كى اشياء چورى ہو سكتى ہيں، يا پھر تصاوير گم ہو سكتى ہيں، يا وہ كسى عام جگہ انہيں بھول سكتا ہے، جس كى بنا پر وہ تصوير كئى علاقوں ميں نشر ہو سكتى ہے، اور كسى بے وقوف اور غلط قسم كے شخص كے ہاتھ لگ سكتى ہے، جسے وہ موقع غنيمت جان كر مزيد شر و فساد پھيلانے كا باعث بنےگا.
2 - خاوند اور بيوى كے مابين طلاق ہو سكتى ہے، جس كى بنا پر وہ عورت اس كے ليے اجنبى بن جائيگى، اور طلاق كے بعد اسے ديكھنا اس كے ليے حلال نہيں، كيونكہ وہ اجنبى بن گئى ہے.
3 - خاوند كى جانب سے بيوى پر زيادتى ہو سكتى ہے، اور وہ اسے بليك ميل كر سكتا ہے، اس سلسلہ ميں كئى ايك حادثات و واقعات ہو بھى چكے ہيں، اس طرح خاوند بيوى كو بليك ميل كر سكتا ہے كہ اس كے پاس اس كى ننگى اور بے لباس تصاوير ہيں، تا كہ بيوى اپنے مالى حقوق چھوڑ دے، يا پھر اس كى حرام ضروريات پورى كرے، يا اس كے غلط اور برے افعال پر بيوى خاموش رہے، يہ سب كچھ ہو سكتا ہے، كيونكہ خاوند كے پا ساس كى ننگى ويڈيو اورتصاوير ہيں.
4 - خاوند كا بيوى كى ننگى اور بےلباس تصاوير كو ديكھنا شہوت ختم نہيں كريگا، بلكہ اس كے برعكس صحيح يہ ہے كہ اس كى شہوت جوش مارےگى، اور اس ميں اور آگ لگائيگى اور شہوت اس وقت تك ختم نہيں ہو گى جب تك كہ وہ حرام كام كا ارتكاب نہ كر لے، مثلا مشت زنى ـ يہ سب سے آسان اور سہل اور كم از كم ہے ـ يا پھر زنا يا لواطت وغيرہ اللہ اس سےمحفوظ ركھے.
تواس كا يہ عذر كہ وہ دور ہونے كى صورت ميں ديكھنے كےليے اس كى تصوير بنانا چاہتا ہے مقبول نہيں ہو گا، بلكہ ا سكا يہ فعل حرام ميں پڑنے كا سبب بن رہا ہے كہ، تصوير بنا كر كئى قسم كى اور خرابيوں ميں پڑے گا.
اس ليے خاوند كےليے جائز نہيں كہ وہ بيوى كى ننگى يا بےلباس اور بے پرد تصوير اور ويڈيو بنائے، خاوند كو چاہيے كہ وہ اپنے اندر اس كى عزت كى غيرت كا وصف پيدا كرے، اور اس عزت كى حفاظت كے ليے جتى بھى طاقت صرف كر سكتا ہے صرف كرے، نہ كہ وہ اس ميں اس طرح كے افعال كى زيادتى كرے، اسى طرح بيوى كے ليے بھى جائز نہيں كہ وہ خاوند ان افعال پر اس كى موافقت كرے، بلكہ بيوى پر واجب ہے كہ وہ اسے اس سے روكے، اور اس كى بات تسليم نہ كرے.
اللہ سبحانہ و تعالى نے خاوند اور بيوى ميں سے ہر ايك كود وسرے كا لباس قرار ديتے ہوئے فرمايا ہے:
وہ ( بيوياں ) تمہارے ليے، اور تم ان كے ليے لباس ہو البقرۃ ( 187 ).
خاوند كو اس پر متنبہ رہنا چاہيے كہ وہ اپنى بيوى كا لباس ہے، تو پھر كس طرح وہ اپنے اس فعل كے ساتھ اسے ننگا كرنا چاہتا ہے، حالانكہ اصل ميں تو اسے ا سكا ستر اور لباس ہونا چاہيے تھا ؟!
اور خاوند كو اپنى بيوى اور گھر سےزيادہ دور نہيں رہنا چاہيے، كيونكہ انہيں اس كى ضرورت ہے، اور وہ خود ان كا محتاج ہے، بيوى كو اپنى عزت و عصمت كے ليے خاوند كى ضرورت ہے، اور خاوند كو بيوى كے ساتھ رہ كر اپنى عزت و عصمت دركار ہے، اور اولاد تربيت و پرورش اور خيال كے كى محتاج اور ضرورتمند ہے.
اور اگر خاوند گھر اور بيوى سے دور رہنے پر مجبور ہو اور ليٹ ہو جائے، اور بيوى بھى اس پر راضى ہو، تو پھر اس پر واجب ہے كہ وہ اللہ سے ڈرے اور اپنے رب كا تقوى اختيار كرتے ہوئے شہوت انگيزى والى اشياء سے اجتناب كرے اور دور رہے، اور عورتوں سے ميل جول نہ كرے، اور نہ ہى حرام خلوت كا مرتكب ہو، اور ا نكى جانب مت ديكھے.
اور اس كے ساتھ ساتھ اسےكثرت كے ساتھ زيادہ سے زيادہ اطاعت و فرمانبردارى والے كام خاص كر روزے ركھنے چاہييں، اسى طرح اس پر يہ بھى واجب ہے كہ وہ اپنے ليے بہتر اور نيك و صالح قسم كے دوسب و احباب بنائے، جو اسے نيكى و بھلائى كے كاموں ميں معاونت كريں، اور اس پرابھاريں.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ اسے اپنى پسند اور رضامندى والے كام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .