الحمد للہ.
اول:
صحيح نكاح ہونے كے ليے اس ميں سب اركان اور شروط كا ہونا ضرورى ہے جو يہ ہيں:
خاوند اور بيوى كى تعين اور ان كى رضامندى، اور ولى كى موافقت، اور عقد نكاح ميں ولى كى موجودگى، اور دو گواہوں كا ہونا يا پھر نكاح كا اعلان كرنا...
اس سب كى تفصيل سوال نمبر ( 2127 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.
دوم:
مسيار شادى اس وقت صحيح ہوگى جب اس ميں عقد نكاح كى شروط اور اس كے اركان پائے جائيں، اور اس شادى كى صورت دور قديم ميں موجود ہے، اس ميں خاوند بيوى كے ليے شرط ركھتا ہے جو اس سے شادى كى رغبت ركھے وہ اس اور دوسرى بيويوں كے مابين برابرى كے ساتھ راتوں كى تقسيم نہيں كريگا، يا پھر وہ اس كے اخراجات كا ذمہ دار نہيں، يا اس كى رہائش كا ذمہ دار نہيں.
اور يہ بھى شرط ركھ سكتا ہے كہ رات كى بجائے وہ اس كے پاس دن كو آئيگا، جسے النھاريات يعنى دن والياں كا نام ديا جاتا ہے، اور يہ بھى ہو سكتا ہے كہ عورت ہى اپنے حقوق سے دستبردار ہو جائے، ہو سكتا ہے وہ عورت مالدار ہو اور اس كے پاس رہائش بھى ہو اس ليے وہ اس سے دستبردار ہو جائے.
اور يہ بھى ہو سكتا ہے كہ وہ رات كى بجائے دن پر راضى ہو جائے، اور يہ بھى ہو سكتا ہے وہ اپنى سوكنوں كے ايام سے كم ايام پر راضى ہو جائے، اور ہمارے دور ميں يہى مشہور ہے.
دونوں طرف سے ان حقوق سے دستبردار ہونا نكاح كو حرام نہيں كرتا، اگرچہ بعض اہل علم نے اسے ناپسند كيا ہے، ليكن شروط اور اركان كے اعتبار سے يہ جواز سے خارج نہيں ہوتا.
مصنف ابن ابى شيبہ ميں حسن بصرى اور عطاء بن ابى رباح سے مروى ہے كہ وہ دونوں دن والياں " النھاريات " سے شادى كرنے ميں كوئى حرج نہيں سمجھتے تھے "
ديكھيں: مصنف ابن ابى شيبۃ ( 3 / 337 ).
اور عامر الشعبى سے مروى ہے ان سے ايك شخص كے متعلق دريافت كيا گيا كہ جس كى بيوى ہو اور وہ ايك دوسرى عورت سے شادى كرے تو اس كے ليے ايك دن كى شرط ركھے اور دوسرى كے ليے دو دن كى تو اس كا حكم كيا ہو گا ؟
انہوں نے جواب ديا: اس ميں كوئى حرج نہيں " انتہى
ديكھيں: مصنف ابن ابى شيبۃ ( 3 / 338 ).
سابقہ مرجع ميں بيان كيا گيا ہے كہ اسے محمد بن سيرين اور حماد بن ابى سليمان اور امام زہرى نے ناپسند كيا ہے، اور ہمارے معاصر علماء ميں سے اكثر نے اس كى اباحت كا فتوى ديا ہے.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:
مسيار شادى كے بارہ ميں آپ كى كيا رائے ہے، يہ شادى اس طرح ہوتى ہے كہ آدمى دوسرى يا تيسرى يا چوتھى شادى كرے اور اس بيوى كى كچھ ضروريات ہوں جس كى بنا پر وہ اپنے والدين كے پاس ان كے گھر ميں رہتى ہو، اور خاوند مختلف اوقات ميں اس كے پاس جايا كرے جو دونوں كے حالات كے مطابق ہو، اس طرح كى شادى ميں شريعت كا حكم كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" جب اس ميں معتبر شرعى نكاح كى شروط پائى جائيں اور وہ شروط ولى كى موجودگى اور خاوند اور بيوى كى رضامندى اور عقد نكاح كے وقت دو گواہوں كى موجودگى، اور خاوند اور بيوى كا موانع سے سليم ہونا؛ اس كى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان ہے:
" شروط پورے كرنے ميں شروط كو پورا كرنے كى وہ شرط حقدار ہيں جن سے تم شرمگاہ كو حلال كرتے ہو "
اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" مسلمان اپنى شرطوں پر قائم رہتے ہيں "
چنانچہ جب خاوند اور بيوى اس پر متفق ہوں كہ عورت اپنے گھر والوں كے پاس ہى رہےگى، يا پھر تقسيم رات كى بجائے دن ميں ہو گى، يا پھر معين ايام يا معين راتوں ميں ہوگى تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ نكاح اعلانيہ ہو خفيہ طريقہ سے نہ كيا جائے "
ديكھيں: فتاوى علماء بلد الحرام ( 450 - 451 ).
ليكن جب اكثر لوگوں نے اس كا غلط استعمال كرنا شروع كر ديا تو جن علماء نے اس كے جواز كا فتوى ديا تھا وہ اس ميں جواز كے قول سے توقف اختيار كرنے لگے، ان ميں سب سے اوپر شيخ عبد العزيز بن باز اور شيخ ابن عثيمين رحمہما اللہ شامل ہيں.
شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
مسيار اور شرعى شادى ميں كيا فرق ہے ؟ اور مسيار شادى ميں كن شروط كا پايا جانا ضرورى ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" ہر مسلمان شخص كو شرعى شادى كرنى چاہيے، اور اسے اس كے خلاف كام كرنے سے اجتناب كرنا چاہيے، چاہے اسے زواج مسيار كا نام ديا جائے يا كوئى اور، شرعى شادى كى شروط ميں اعلان شامل ہے، اس ليے اگر خاوند اور بيوى نے اسے چھپايا تو يہ صحيح نہيں؛ كيونكہ يہ اور جو حال بيان كيا گيا ہے وہ زنا سے زيادہ مشابہ ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 20 / 431 - 432 ).
حقيقت يہ ہے كہ يہ نكاح معاشرے ميں غير شادى شدہ اور شادى كى عمر سے زيادہ عمر ميں پہنچ جانے والى عورتوں كے ليے اسلامى معاشرے ميں بہت سارى مشكلات كا حل ہے، چنانچہ آدمى نہ تو عورتوں ميں تقسيم كى استطاعت ركھتا ہے، يا پھر دو بيويوں پر اخراجات نہيں كر سكتا، اور پھر بہت سارى عورتيں ايسى ہيں جن كے پاس مال بھى ہے اور رہائش بھى اور وہ اپنے نفس كو عفت عصمت ميں ركھنا چاہتى ہے، چنانچہ ہفتہ كے كسى بھى دن يا پھر مہينہ ميں كچھ ايام خاوند اس كے پاس آتا ہے.
اور ہو سكتا ہے اللہ عزوجل ان ميں محبت و الفت اور حسن معاشرت پيدا كر دے، اور اچھے حالات بن جائيں جن كى بنا پر اس مرد كى اس عورت سے شادى سے اس كى حالت بدل كر پہلے سے بہترى ميں تبديل ہو جائے، تو وہ عدل و انصاف كے ساتھ تقسيم كرنے لگے، اور اس پر خرچ بھى كرے اور اسے رہائش بھى دے.
اور اس نكاح ميں بہت سارى خرابياں اور مفاسد بھى پائے جاتے ہيں جو كسى پر مخفى نہيں، مثلا خاوند كى وفات كے بعد تركہ ميں اختلاف پيدا ہونا، اور اسے خفيہ ركھنے اور اعلان نہ كرنے ميں بہت سارى خرابياں ہيں.
اور پھر كچھ فسادى قسم كے مرد و عورت اس شادى كو غلط كام كے ليے وسيلہ بنا سكتے ہيں، اور وہ آپس ميں حرام تعلقات قائم كر كے عزيز و اقارب اور پڑوسيوں كى آنكھوں سے دور رہائش ركھ سكتے ہيں، اور جب انہيں كوئى ديكھے تو وہ كہيں گے يہ شادى مسيار ہے!
ہمارى سائل بہن اس كے بعد آپ كے سامنے واضح ہو گيا ہو گا كہ آپ كے خاوند كے ليے جائز نہيں كہ وہ آپ كے حق ميں كوتاہى كرے اور آپ كےحقوق پر ظلم كرے؛ كيونكہ آپ كے ساتھ اس نے ان شرائط پر شادى نہيں كى، اور پھر آپ اس كى پہلى بيوى ہيں.
اور اگر رات بسر كرنے ميں كوئى نقص ہے تو وہ دوسرى بيويوں كے پاس ہو نہ كہ آپ كے پاس، اس نے جس بيوى سے شادى مسيار كر ركھى ہے اس كا حق نفقہ يا رہائش يا رات بسر كرنے كا حق ساقط ہوگا ( جيسا كہ ان كے مابين اتفاق ہوا ہو ) اور اس كے ليے جائز نہيں كہ وہ آپ پر ظلم كرتے ہوئے اپنے دن رات ان بيويوں كے پاس گزارے، اور خاص كر جب آپ اپنے حقوق سے دستبردار نہيں ہوئيں.
سوم:
آدمى كا دوسرى بيوى كے ساتھ شادى كرنے كا سبب بعض اوقات تو خاوند ہوتا ہے، اور بعض اوقات بيوى سبب بنتى ہے، كيونكہ ہو سكتا ہے خاوند شديد قوى شہوت كا مالك ہو اور اسے ايك بيوى كافى نہ ہو، اور بعض اوقات ہو سكتا ہے كسى علاقے ميں اس شخص كا سفر بہت زيادہ ہوتا ہو، اس ليے اسے اپنے آپ كو محفوظ ركھنے اور خدمت كے ليے بيوى كى ضرورت ہو.
اور بعض اوقات اس شادى كا سبب عورت كى جانب سے ہوتا ہے؛ وہ اس طرح كہ گھر كى صفائى اور ترتيب ميں كوتاہى كرتى ہے، اور اولاد كى ديكھ بھال صحيح نہيں كرتى، اور اپنے خاوند كے ليے بن سنور كر نہيں رہتى، اگر تو يہ دوسرا سبب ہے تو آپ اپنے نفس كى طرف رجوع كريں، اور اس خلل اور كمى و كوتاہى كو تلاش كريں، جو آپ خاوند كے ليے دوسرى شادى كرنے كا باعث بنا ہے.
اور اگر پہلا سبب ہو تو آپ كو صبر و تحمل كا مظاہرہ كرنا چاہيے، اور شريعت اسلاميہ ميں صبر كا بہت زيادہ مقام و مرتبہ ہے، اور اللہ كى اطاعت و فرمانبردارى پر ، اور اللہ كى معصيت و نافرمانى سے ركنے پر صبر كرنے والے شخص، اور اللہ عزوجل كى تقدير پر صبر و تحمل كا مظاہر كرنے والى عورت كے ليے اللہ عزوجل كے كے ہاں بغير حساب عظيم اجروثواب ہے:
جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا اراشاد ہے:
" نہيں سوائے اس بات كے صبر كرنے والوں كو بغير حساب كے اجروثواب پورا ديا جائيگا " الزمر ( 10 ).
اگر آپ اپنى ازدواجى زندگى ميں اللہ كا تقوى اور ڈر اختيار كرتى ہيں، اور خاوند كے حقوق كا خيال ركھيں، اور اپنى اولاد كى تعليم و تربيت اور ديكھ بھال اچھى كريں تو آپ كو اللہ عزوجل كى جانب سے عظيم اجروثواب حاصل ہوگا، اور اسى طرح اگر آپ اپنے خاوند كى دوسرى شادى پر بھى صبر كريں تو بھى آپ كو اللہ عزوجل سے عظيم اجروثواب حاصل ہوگا.
مزيد آپ سوال نمبر ( 21421 ) كے جواب كا مطالعہ كريں اس ميں اس كى تفصيل بيان كى گئى ہے.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو صبر اور راضى ہونے كى توفيق دے، اور آپ كى خاوند كو آپ كے ليے صحيح كر دے.
واللہ اعلم .