سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

لڑكى كے گھر والے شادى نہيں كرتے اب وہ بغير ولى كے عرفى شادى كرنے كا سوچ رہى ہے

98110

تاریخ اشاعت : 07-04-2010

مشاہدات : 7555

سوال

ميں اكتيس برس كى لڑكى ہوں اور ميرى مالى حالت بھى كمزور ہے ميں ملازمت بھى نہيں كرتى، تقريبا ايك برس سے ميرا انٹرنيٹ كے ذريعہ ايك نوجوان سے تعارف ہوا تو اس نے مجھ سے شادى كرنے كى فكر پيش كى، اور وہ نوجوان لڑكے اور لڑكيوں ميں تعارف كى سوچ كے خلاف ہے.
ميں نے اپنى والدہ سے اس موضوع كے متعلق بات كى تو انہوں نے انكار كر ديا اور دليل يہ دى كہ وہ معاشرتى طور پر ہم سے اوپر ہے، اس كى وجہ سے ہو سكتا ہے وہ ہم كو حقير جانے اور اس كے خاندان والے ہميں نچلے درجہ كے سمجھيں.
ميں نے والدہ سے كئى بار شادى كے بارہ ميں بات كى ہے ليكن وہ كہتى ہے كہ تم شادى كر كے كيا كرو گى تم اپنے گھر ميں عزت و احترام سے رہ رہى ہو!!!
ميں نے اس لڑكے كو بتا ديا كہ ميں تم سے شادى نہيں كر سكتى اور ہم نے آپس ميں رابطہ منقطع كر ديا، كچھ مہينے قبل ميں نے شادى كى ايك ويب سائٹ كے ذريعہ ايك لڑكے سے تعارف كيا جو كہ پہلے بھى شادى شدہ ہے، مجھے اس ميں كوئى مانع نہيں ليكن ميرى والدہ انكار كرتى ہے اور كہتى ہے كہ وہ شادى شدہ بھى ہے اور پھر اس كى برادرى اور قبيلہ بھى اور ہے.
ہمارى مالى حالت اچھى نہيں، اور ہمارا خاندانى ماحول بھى مشكل ہے، ميں اس حالت سے نفسياتى طور پر تنگ آ چكى ہوں، ليكن اس كے باوجود اپنے رب كا خوف اور ڈر ہے، ليكن ايك يا دو بار ايسے كام كى جرات كر بيٹھى جس كا ذكر كرنا مناسب نہيں سمجھتى.
جناب مولانا صاحب: ميں حرام كام ميں نہيں پڑنا چاہتى ليكن آخرى حل يہى ہے كہ ميں اس آخرى شخص سے شادى كر لوں جس سے ويب سائٹ كے ذريعہ ميرا تعارف ہوا ہے، وہ بھى شادى كے ليے تيار ہے، اور ہم الحمد للہ شادى پر متفق ہيں. ميرا سوال يہ ہے كہ: ميں عرفى شادى كرنا چاہتى ہوں ليكن اس كے گواہ بھى ہوں اور عقد نكاح بھى اور مہر بھى ہو، ليكن اس كى جانب سے ولى نہ ہو اور نہ ہى ميرے خاندان والوں كو علم ہو...
كيونكہ ميرے والد صاحب كمزور شخصيت كے مالك ہيں، اور بات ميرى والدہ كى ہى مانى جاتى ہے، اور ان اساسى گواہوں كے علاوہ ميرى دو سہيلياں بھى ہيں....
كيا ميں اس سے شادى كر سكتى ہوں ؟
يہ علم ميں رہے كہ ميرى يہ عرفى شادى مستقل طور پر نہيں رہےگى بلكہ جب مناسب وقت آيا اپنے خاندان والوں كو بتا دونگى، ميں يہ شادى اس ليے كرنا چاہتى ہوں تا كہ اپنى عفت و عصمت محفوظ ركھ سكوں، كيا ميرے ليے ايسا كرنا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ولى كے بغير نكاح نہيں ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2085 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1101 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1881 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں سے صحيح قرار ديا ہے.

اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس عورت نے بھى اپنے والى كى اجازت كے بغير نكاح اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے اور اگر جھگڑا كريں تو جس كا ولى نہ ہو اس كا حاكم ولى ہے "

مسند احمد حديث نمبر ( 24417 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2083 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1102 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 2709 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

دوم:

جب ولى اپنى ولايت ميں موجود عورت كو مناسب اور برابر كے رشتہ آنے پر اس كى شادى نہ كرے جس سے وہ شادى كرنے پر راضى ہو تو اس نے اسے شادى كرنے سے روك ديا، اس طرح اس كى ولايت منتقل ہو كر بعد والے عصبہ مرد كو حاصل ہو جائيگى، اور پھر قاضى كو.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

عضل كا معنى يہ ہے كہ عورت كو اس كے مطالبہ پر مناسب اور كفؤ كے رشتہ سے شادى كرنےسے منع كر دينا، جبكہ دونوں ميں سے ہر ايك دوسرے كى رغبت ركھتے ہوں.

معقل بن يسار رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے اپنى بہن كى ايك شخص سے شادى كر دى تو اس شخص نے ميرى بہن كو طلاق دے دى، اور جب اس كى عدت گزر گئى تو وہ اس سے دوبارہ شادى كرنے كے ليے آيا تو ميں نے اسے كہا:

ميں نے اس سے تيرى شادى كى، اور تيرا بستر بنايا اور تيرى عزت و احترام كيا تو نے اسے طلاق دے دى اور اب اس كا دوبارہ رشتہ طلب كر رہے ہو! اللہ كى قسم وہ تيرے پاس دوبارہ كبھى نہيں لوٹ سكتى، اور اس شخص ميں كوئى حرج بھى نہ تھا اور عورت بھى اس كے پا سواپس جانا چاہتى تھى.

تو اللہ عزوجل نے يہ آيت نازل فرما دى:

" تم انہيں مت روكو "

تو ميں نے عرض كيا: اے اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اب ميں كرتا ہوں، تو انہوں نے اپنى بہن كى شادى اس سے كر دى " اسے بخارى نے روايت كيا ہے.

چاہے مہر مثل يا اس سے كم ميں شادى كرنے كا مطالبہ كرے، امام شافعى اور ابو يوسف اور محمد رحمہم اللہ كا يہى كہنا ہے.

چنانچہ اگر عورت كسى بعينہ كفؤ رشتہ سے شادى كرنے كى رغبت ركھتى ہو اور ولى كسى اور كفؤ والے رشتہ سے اس كى شادى كرنا چاہتا ہو، اور جس شخص سے وہ عورت شادى كرنا چاہتى ہے اس سے شادى نہ كرے تو وہ اس كو شادى سے روكنے والا يعنى عاضل شمار ہوگا.

ليكن اگر وہ عورت كفؤ كے بغير كسى اور شخص سے شادى كرنا چاہتى ہے تو ولى اسے اس سے منع كر سكتا ہے، تو اس صورت ميں وہ عاضل شمار نہيں ہو گا.

ديكھيں: المغنى ( 9 / 383 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب ولى عورت كو كسى ايسے شخص سے شادى كرنے سے منع كر دے جو دين اور اخلاق ميں اس كا كفؤ ہو تو ولايت اس كے بعد والے عصبہ مرد ولى ميں منتقل ہو جائيگى، اور اگر وہ سب اس كى شادى كرنے سے انكار كريں جيسا كہ غالب ميں ہے تو يہ ولايت شرعى حاكم ميں منتقل ہو جائيگى، اور شرعى حاكم اس عورت كى شادى كريگا.

اور اگر اس تك معاملہ اور مقدمہ پہنچتا ہے اور اسے علم ہو جائے كہ اس كے اولياء نے شادى كرنے سے منع كر ديا ہے تو اس پر اس كى شادى كرنا واجب ہے، كيونكہ جب خاص ولايت حاصل نہ ہو تو حاكم كو عام ولايت حاصل ہے.

فقھاء رحمہ اللہ نے بيان كيا ہے كہ جب ولى آنے والے رشتہ كو بار بار رد كر دے اور وہ رشتہ كفؤ بھى ہو تو اس طرح وہ فاسق بن جائيگا، اور اس كى عدالت اور ولايت ساقط ہو جائيگى، بلكہ امام احمد كے مسلك ميں مشہور يہ ہے كہ اس كى امامت بھى ساقط ہو جائيگى، اس ليے وہ مسلمانوں كو نماز بھى نہيں پڑھا سكتا، اور يہ معاملہ بہت خطرناك ہے.

جيسا كہ ہم اوپر اشارہ كر چكے ہيں كہ بعض لوگ اپنى ولايت ميں موجود عورت كا مناسب اور كفؤ رشتہ آنے پر رد كر ديتے ہيں، ليكن لڑكى قاضى كے پاس آ كر شادى كا مطالبہ كرنے سے شرماتى رہتى ہے، يہ فى الواقع اور حقيقت ہے، ليكن اس لڑكى كو مصلحت اور خرابى ميں موازنہ كرنا چاہيے كہ كس چيز ميں زيادہ خرابى پائى جاتى ہے:

كہ وہ اس طرح شادى كے بغير رہے اور اس كا ولى اس پر كنٹرول كرے اور اپنى مرضى اور خواہش و مزاج كے مطابق حكم چلائے اگر وہ بڑى ہو جائے اور نكاح كرنا چاہے تو اس كى شادى كر دے يا پھر وہ قاضى كے پاس جا كر شادى كا مطالبہ كرے حالانكہ يہ اس كا شرعى حق بھى ہے ؟

بلاشك دوسرا بدل پہلے سے بہتر ہے، وہ يہ كہ لڑكى قاضى كے پاس جا كر شادى كا مطالبہ كرے كيونكہ يہ اس كا حق ہے؛ اور اس ليے بھى كہ ا سكا قاضى كے پاس جانا اور قاضى كا اس كى شادى كر دينے ميں دوسرے كى بھى خير اور بھلائى اور مصلحت پائى جاتى ہے.

كيونكہ اس كے علاوہ ہو سكتا ہے دوسرى عورت بھى اسى طرح قاضى كے پاس آ جائے جيسے وہ آئى ہے، اور اس ليے بھى اس كا قاضى كے پاس آنے ميں اس طرح كے لوگوں كے ليے ڈر اور روكنے كا بھى باعث ہے جو اپنى ولايت ميں موجود عورتوں پر ظلم كرتے ہوئے ان كى مناسب رشتہ آنے پر شادى نہيں كرتے يعنى اس ميں تين مصلحتيں پائى جاتى ہے:

پہلى مصلحت:

اس عورت كے ليے ہے جو يہ مقدمہ قاضى كے پاس لے جائے تا كہ وہ شادى كے بغير نہ رہے.

اور دوسرى مصلحت:اس كے علاوہ دوسرى عورت كے ليے دروازہ كھلے گا جو اسى انتظار ميں ہے كہ كوئى مقدمہ پيش كرے اور ہم بھى جائيں.

اور تيسرى مصلحت: ان اولياء كو روكا جاسكےگا جو اپنى بيٹيوں يا اپنى ولايت ميں موجود عورتوں پر اپنى مرضى ٹھونستے ہيں اور جو چاہتے ہيں كرتے ہيں.

اور اس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم پر عمل كى بھى مصلحت پائى جاتى ہے كہ آپ نے فرمايا:

" جب تمہارے پاس كوئى ايسا شخص آئے جس كا دين اور اخلاق تمہيں پسند ہو تو اس كا نكاح كر دو، اگر ايسا نہيں كرو گے تو زمين ميں بہت زيادہ فتنہ و فساد ہو گا "

اور اسى طرح اس ميں خاص مصلحت پائى جاتى ہے وہ يہ كہ اس طرح ان لوگوں كى ضرورت پورى ہوگى جو دين اور اخلاق ميں كفؤ عورتوں سے رشتہ كرنا چاہتے ہيں " انتہى

ماخوذ از: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 148 ).

دوم:

آپ كو چاہيے كہ آپ اس سلسلہ ميں ايسے افراد سے معاونت حاصل كريں جو آپ كے والد اور والدہ كو نصيحت كريں، اور انہيں آپ كى شادى كرنے پر تيار كريں، اور انہيں ظلم كرنے اور شادى سے روكنے كے گناہ سے ڈرائيں.

اور آپ سے جو شخص شادى كرنے كى رغبت ركھتا ہے اسے چاہيے كہ وہ آپ كے ولى سے آپ كا رشتہ طلب كرے، اگر وہ بغير كسى ظاہرى سبب كے انكار كر دے تو پھر آپ اپنا معاملہ قاضى كے سامنے ركھيں تا كہ وہ آپ كى شادى كا معاملہ طے كرے اور آپ كو حق حاصل نہيں كہ آپ اپنى شادى خود كر ليں، خاص كر عرفى شادى جس ميں آپ كے حقوق كى كوئى ضمانت بھى نہيں ہے.

اس طرح كى شاديوں ميں خاوندوں كے ليے بہت آسان ہوتا ہے كہ وہ اپنى بيوى سے چھٹكارا حاصل كر ليتے ہيں، اور اسے چھوڑ ديتے ہيں، اور اسے پہچاننے سے بھى انكار كر ديتے ہيں اور اس كے كسى حق كا اعتراف تك نہيں كرتے، اس كے بہت سارے قصے مشہور ہيں، اس ليے ان قصوں سے عبرت حاصل كرنى چاہيے.

سوم:

آپ كو چاہيے كہ آپ كسى بھى اجنبى مرد كے ساتھ انٹرنيٹ يا كسى اور طريقہ سے تعلقات قائم كرنے سے اجتناب كريں، اور آپ يہ علم ميں ركھيں كہ جو كچھ اللہ كے پاس ہے اسے حاصل كرنے كے ليے اللہ كى اطاعت ہى كرنا ہوگى، اس كے بغير وہ حاصل نہيں ہو سكتا، اور معصيت و نافرمانى رزق اور خير و بھلائى سےمحروم كرنے كا بنيادى سبب ہے.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آب كے والدين كو ہدايت نصيب فرمائے، اور آپ كے معاملہ كو آسان كرے، اور آپ كو نيك و صالح خاوند اور اولاد عطا كرے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب