جمعرات 25 جمادی ثانیہ 1446 - 26 دسمبر 2024
اردو

جسمانى صحت اور مالى حالت خراب ہونے پر كچھ نصيحت دركار ہے

98399

تاریخ اشاعت : 26-05-2013

مشاہدات : 5086

سوال

ميں بہت زيادہ پريشان ہوں، ميرى صحت بہت اچھى تھى ليكن اچانك سب كچھ تبديل ہوگيا اور اب ميں مريض بن كر رہ گيا ہوں، ميرے پاس كوئى كام بھى نہيں، ميں اپنے والدين كى بھى بہت اچھى طرح ديكھ بھال كيا كرتا تھا، ليكن اب ميں ان كو ايك روپيہ بھى نہيں بھيج سكتا، اس ليے ميرے بوڑھے والدين نے روزى حاصل كرنے كے ليے كام كاج كرنا شروع كر ديا ہے!!
بھائى صاحب يقين كريں اب تو مجھے اپنى صحت كے متعلق بھى بہت خطرات و خدشات ہيں، مجھے يقين ہے كہ اب ميرى صحت اچھى نہيں رہى، ليكن ڈاكٹر كے پاس جانے سے قبل ميرى يہى دعا ہے كہ اللہ تعالى مجھے خطرناك قسم كے امراض سے محفوظ ركھے.
ميں ہر چيز كھو چكا ہوں، اور بہت ہى مشكل وقت سے گزر رہا ہوں؛ برائے مہربانى مجھے كچھ اسلامى پند و نصائح كريں جو ميرى مشكلات حل كرنے ميں ممد و معاون ثابت ہوں، حالانكہ ميں ہميشہ اپنے گناہوں اور غلطيوں سے استغفار كرتا رہا ہوں، اللہ آپ كو اس پند و نصائح پر جزائے خير عطا فرمائے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہمارى دعا ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى سائل كى ہر قسم كى بيمارى دور فرمائے، اور اس كى ہر قسم كى تنگى دور كرے، اور آپ كے سارے غم و پريشانى كو خوشى و سرور ميں تبديل كر دے اور آپ كى آنكھيں ٹھنڈى فرمائے!!

آپ نے اپنى پريشانى و غم كا مداوا اور علاج استغفار كے ساتھ كر كے بہت اچھا كيا ہے، كيونكہ كسى تنگى و پريشانى كو دور كرنے اور خير و بھلائى لانے كے ليے استغفار سب سے عظيم سبب ہے.

جيسا كہ نوح عليہ السلام كے متعلق بيان كرتے ہوئے اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

تو ميں نے انہيں كہا تم اپنے رب سے استغفار كرو يقينا وہ بخش دينے والا ہے، اللہ تعالى تم پر آسمان سے بارش نازل فرمائيگا، اور اموال اور اولاد كے ساتھ تمہارى مدد بھى فرمائيگا، اور تمہارے ليے باغات اور نہريں جارى كر دےگا نوح ( 10 ـ 12 ).

ہم آپ كو درج ذيل پند و نصائح كرتے ہيں:

پہلى نصيحت:

آپ اللہ سبحانہ و تعالى كى طرف متوجہ ہوں اور اسى كى طرف رجوع كريں، اور اللہ سبحانہ و تعالى سے عاجزى و انكسارى كے ساتھ دعا كريں كہ وہ آپ كى سارى تنگياں اور پريشانياں دور فرمائے، كيونكہ وہ اللہ اكيلا ہى اس پر قادر ہے.

جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اگر اللہ تعالى آپ كو كوئى تكليف دے تو وہ تكليف اللہ كے علاوہ كوئى اور دور نہيں كر سكتا، اور اگر اللہ تعالى تمہيں كوئى خير و بھلائى عطا كرے تو وہ اللہ تعالى ہر چيز پر قادر ہے الانعام ( 17 ).

يہ بات ياد ركھيں كہ دعا كى شان بہت ہى عظيم ہے اور ہو سكتا ہے كہ يہ مصائب اور تنگياں بندے اور اللہ كے مابين مناجات و تعلق قائم كرنے كا سبب بن جائے اور ہو سكتا ہے بندہ اپنے پروردگار سے مناجات ميں مستغرق ہو اور اس سے انس ركھنے لگے اور اس كى مٹھاس و حلاوت پا لے اور ہر قسم كى تنگى و تكليف كو بھول جائے، جو كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا اپنے بندے پر خفيہ لطف و كرم ہے، اور كيوں نہ ہو وہ اللہ سبحانہ و تعالى تو رحيم و ودود سبحانہ و تعالى ہے.

دوسرى نصيحت:

آپ اپنے پروردگار كے ساتھ حسن ظن ركھيں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى ہر خوبصورت و جميل كا اہل ہے، آپ كسى شر و برائى كى توقع ركھنے اور آزمائش و ابتلاء كا انتظار كرنے كى بجائے اپنى اميد كى سوچ اس طرح ركھيں كہ اميد ہے اللہ تعالى آپ كے ساتھ مہربانى فرمائيگا، اور آپ كى حالت سدھار دےگا.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے: ميں اپنے بندے كے گمان كے مطابق ہوں جو وہ ميرے بارہ ميں گمان ركھتا ہے، جب وہ مجھے پكارتا ہے تو ميں اس كے ساتھ ہوتا ہوں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 7405 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2675 ) يہ الفاظ مسلم كے ہيں.

جب آپ نے بيان كيا ہے كہ آپ اپنے گناہوں اور غلطيوں سے كثرت كے ساتھ استغفار كرتے ہيں، تو ہم آپ كو يہ تنبيہ كرتے ہيں كہ جن غلطيوں اور گناہوں سے كثرت استغفار اور توبہ كرنے كى ضرورت ہوتى ہے ان ميں اللہ رب العالمين كے ساتھ سوء ظن بھى شامل ہے جو كہ رحيم و ودود ہے اس كے ساتھ سوء ظن نہيں ركھنا چاہيے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس طرح كى حالت كا جو شخص شكار ہو اس كے اندر اللہ كى خلق و امر ميں تقدير كى مخالفت و ناراضگى كى ايك قسم سے باقى رہتى ہے، اور اس كى حكمت و رحمت كے متعلق وسوسوں كا شكار رہتا ہے، اس ليے بندے كو اپنے آپ سے دو چيزوں كى نفى كرنى چاہيے:

ايك تو غلط و فاسد قسم كى آراء اور دوسرا غلط و فاسد قسم كى اہواء خواہشات، اسے يہ معلوم ہونا چاہيے كہ اللہ سبحانہ و تعالى كے علم و حكمت كے تقاضے كے مطابق اس كى حكمت و عدل ہے، نہ كہ بندے كے علم و حكمت كے تقاضے كے مطابق، اس ليے بندے كى اہواء و خواہشات اللہ سبحانہ و تعالى كے حكم كے مطابق ہونى چاہيں، اس ليے بندے كى خواہشات اللہ كے حكم اور حكمت كے مخالف نہ ہوں " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 10 / 288 ).

تيسرى نصيحت:

اپنى مشكلات كو دور كرنے كے ليے مادى اسباب اختيار كرنا، اس ليے آپ اس بيمارى كا دوائى كے ساتھ علاج معالجہ كريں جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:

" اللہ سبحانہ و تعالى نے بيمارى اور اس كا علاج بھى نازل كيا ہے، اور ہر بيمارى كى دوا اور علاج بھى بنايا ہے، اس ليے تم علاج معالجہ كرو، اور كسى حرام چيز كے ساتھ علاج مت كرو"

سنن ابو داود حديث نمبر ( 3874 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے سلسلۃ الصحيحۃ ( 1633 ) ميں اس حديث كو حسن قرار ديا ہے.

آپ اپنى پريشانى ختم كرنے كے ليے اپنے آپ كو دينى اور دنياوى مشغوليات ميں مشغول كريں، اور اپنے اوقات كو فارغ ركھنے كى بجائے فائدہ مند امور ميں مشغول ركھنے كى كوشش كريں، اس ميں كچھ اوقات تو روزى كى تلاش كے ليے مقرر كر ليں، اور كچھ جسمانى ورزش كے ليے، اور كچھ وقت كتابوں كا مطالعہ كرنے اور علمى مجالس اور دروس ميں شركت كے ليے مقرر كر كے اوقات مشغول ركھيں.

چوتھى نصيحت:

ہم يہ كہيں گے كہ آپ روزى كے متعلق پريشان مت ہوں كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے آسمان و زمين بنانے سے پچاس ہزار برس قبل تقدير لكھ دى تھى، اس ليے آپ كا ہم وغم اللہ تعالى كى تقدير كو تبديل نہيں كر سكتا، اور اللہ نے آپ كے مقدر ميں جو لكھ ديا ہے وہ آپ كو مل كر رہےگا، صرف آپ اس كے ليے مباح سبب اختيار كريں، اور وہ بھى جو آپ كى استطاعت ميں ہوں جو سبب استطاعت ميں نہيں اس كے آپ مكلف نہيں.

اور آپ ہميشہ اللہ سبحانہ و تعالى كا يہ فرمان ياد كيا كريں:

زمين پر چلنے پھرنے والے جتنے داندار ہيں سب كى روزياں اللہ تعالى كے ذمہ ہيں، وہى ان كے رہنے سہنے كى جگہ كو جانتا ہے اور ان كے سونپے جانے كى جگہ كو بھى، سب كچھ واضح كتاب ميں موجود ہے ھود ( 6 ).

اور ايك جگہ اس طرح فرمايا:

اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتا ہے اللہ تعالى اس كے ليے چھٹكارے كى شكل نكال ديتا ہے، اور اسے روزى بھى اسى جگہ سے ديتا ہے جس كا اسے گمان بھى نہ ہو، اور جو شخص اللہ پر توكل كرے گا اللہ اسے كافى ہو ہوگا اللہ تعالى اپنا كام پورا كر كے رہيگا، اللہ تعالى نے ہر چيز كا ايك اندازہ مقرر كر ركھا ہے الطلاق ( 2 - 3 ).

پانچويں نصيحت:

ہم آپ كو نصيحت كرتے ہيں كہ آپ اپنے سے كم تر شخص كو ديكھيں، اس طرح آپ ذرا اپنى بصارت و بصيرت كو ان بيماروں اور زخميوں اور اپاہچوں كى طرف دوڑائيں تا كہ آپ كو اپنے اوپر اللہ كى نعمت كى قدر و احساس ہو جائے، كيونكہ اگر آپ يہ كام كريں گے تو آپ كو علم ہو گا كہ آپ كو جتنى بھى تكليف آئے يا آئى ہے پھر بھى آپ صحت و عافيت ميں ہيں.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم اس كى جانب ديكھو جو تم سے نيچا ہے اور اسے نہ ديكھو جو تم سے اوپر ہے، كيونكہ اس طرح تم اللہ كى نعمت كو حقير نہيں سمجھو گے "

ابو معاويہ كہتے ہيں كہ تم اپنے اوپر اللہ كى نعمت كى قدر كر سكو گے.

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6490 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2963 ) يہ الفاظ مسلم كے ہيں.

چھٹى نصيحت:

ہم اپنے عزيز بھائى سے كہيں گے: ميرے بھائى آپ نے اپنے والدين كى ديكھ بھال كر كے انتہائى حسن سلوك كا مظاہرہ كيا ہے، كيونكہ آپ پر ان كا يہ حق بھى تھا، اور يہ ياد ركھيں اللہ سبحانہ و تعالى احسان كرنے والوں كا اجر ضائع نہيں كيا كرتا اور اگر آپ اپنى بيمارى يا روزى كى تنگى كى بنا پر اپنے والدين كے اخراجات نہ ديں سكيں تو اس ميں آپ پر كوئى حرج نہيں، بلكہ اللہ سبحانہ و تعالى آپ كو اجروثواب نصيب فرمائيگا، اور آپ كى بيمارى كے دوران بھى آپ كو ہميشہ اجروثواب ملتا رہےگا، كيونكہ آپ صحت و تندرستى كى حالت ميں جو عمل كرتے تھے بيمارى كى حالت ميں اس كا ثواب حاصل ہوگا.

جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:

" جب بندہ بيمار ہو جاتا ہے يا پھر سفر ميں ہوتا ہے تو اس كے ليے اتنا اور وہى اجر لكھا جاتا ہے جو وہ صحيح اور تندرستى و مقيم ہونے كى حالت ميں عمل كيا كرتا تھا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2996 ).

آپ اپنى استطاعت كے مطابق اپنے والدين پر خرچ كريں اور كسى بھى نيكى كو حقير مت جانيں، اور اگر آپ ان كو دينے كے ليے كچھ نہ پائيں تو آپ ان سے مسلسل رابطہ اور تعلق قائم ركھيں، اور ان كے حالات معلوم كرتے رہيں، اور انہيں اپنى حالت بتا كر ان سے معذرت كر ليا كريں.

اللہ تعالى آپ كے والد كے ليے آسانى پيدا فرمائيگا، اور اس كا ممد و معاون بنےگا، آپ اپنے والد كے ليے كثرت سے دعا كيا كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب